بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں پیپلز پارٹی کی رابطہ کمیٹی نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے نئے اتفاق رائے کی عدم موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔رابطہ کمیٹی نے اگرچہ سیلاب متاثرین کی بحالی،وفاقی حکومت سے متعلق شکایات اور اپنے ساتھ کئے گئے وعدوں کی عدم تکمیل سمیت مختلف امور پر غور کیا لیکن بلوچستان وکے پی کے میں حالیہ دنوں ہونے والے واقعات پر جس طرح وفاقی و صوبائی حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والی مشینری ہم آہنگی سے عاری نظر آئے اس سے پیپلز پارٹی کی تشویش بجا دکھائی دیتی ہے۔پیپلز پارٹی موجودہ حکومت کی اتحادی اور اقتدار میں حصہ دار ہے اس لئے اس کی تشویش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان پہلے افغان جہاد اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اثرات کا شکار رہا ہے۔2013 میں دہشت گردانہ حملے عروج پر تھے، اوسطا ایک دن میں چار حملے ہوئے،اس ایک برس میں کل 2700 ہلاکتیں ہوئیں۔ 2023 کے پہلے تین ماہ میں تقریبا 200 دہشت گردی سے متعلق واقعات اور کم از کم 340 ہلاکتیں ہوئیں۔اس سے پچھلے سال 2022 کی آخری سہ ماہی پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے لیے سب سے مہلک رہی۔ 2022 میں 973 ہلاکتوں میں تقریبا 282 فوجی اور پولیس اہلکار شامل تھے۔ تشدد کی نئی لہر کے اہم کردار مرکز میں ایک نئی دہشت گردی کا باعث بنے ہیں۔ اس میں تحریک طالبان پاکستان ، نسلی بلوچ لبریشن آرمی اور اسلامک اسٹیٹ آف خراسان صوبہ شامل نے پاکستان میں دہشت گردی کا بار بار ارتکاب کیا۔دہشت گردی کی لہر کی فوری وجوہات میں سے ایک ٹی ٹی پی کی جانب سے 28 نومبر 2022 کو ایک سال پہلے کے جنگ بندی معاہدے کی یکطرفہ منسوخی تھی۔ٹی ٹی پی سے متعلق پاکستان کو یقین تھا کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد یہ تنظیم پاکستان میں کارروائیاں بند کردے گی، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔افغان طالبان متعدد وجوہات کی بنا پر ٹی ٹی پی کے خلاف براہ راست حتمی کارروائی کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ دہشت گردی کی ایک وجہ جغرافیائی وسیاسی عوامل ہیں۔ امریکہ اور چین کی شدید باہمی دشمنی کے پس منظر میں، افغانستان میں قائم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ اور آئی ایس کے پی نے کھلے عام خطے میں چینی مفادات کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا۔ آئی ایس کے پی ایسا لٹریچر اور رسالے بانٹتی رہی ہے، جو خاص طور پر چین اور اس کے علاقائی مفادات پر مرکوز ہے۔پاکستان چین کا اتحادی ہے۔دونوں خطے کو بیرونی قوتوں کی ریشہ دوانیوں سے پاک رکھنا چاہتے اور معاشی ترقی کے لئے باہمی رابطوں کے حامی ہیں۔جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ کا سیاست میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔ یہ ادارہ شفاف انتخابات کے ذریعے قائم ہوتا ہے اور ریاست کا سب سے اہم مشاورتی و فیصلہ ساز ادارہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اصولوں اور قوانین کو سیاسی طور پر متعین کرے۔ لہذا یہ بالکل واضح ہے کہ ایک پارلیمنٹ سیاسی اور سماجی معیارات کی وضاحت کے لیے اپنے آئینی کردار کو وفاداری کے ساتھ نبھائے۔ گڈ گورننس کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ درحقیقت یہ کردار ادا کرے۔ سپریم کورٹ نے 2019 میں فیصلہ دیا کہ پارلیمنٹ کو قانونی ضابطہ میں “دہشت گردی” کی قانونی تعریف واضح کرنی ہوگی۔یہ ایک اہم فیصلہ اور پارلیمنٹ کی دہشت گردی کے حوالے سے فیصلہ سازی کو تسلیم کرنا تھا۔انسداد دہشت گردی کا ایک کمزور شعبہ یہ تھا کہ صوبے الگ تھلگ خاموشی سے کام کر رہے تھے۔ وفاقی حکومت، اس کا انٹیلی جنس بیورو اور صوبے ایک دوسرے سے رابطے میں نہیں تھے۔ انٹیلی جنس ادارے معلومات کا اشتراک نہیں کر رہے تھے۔ تعاون کے لیے کوئی باقاعدہ ڈھانچہ نہیں تھا۔اگر کبھی باہمی تعاون نظر آیا تو وہ غیر رسمی تھا، دوستانہ بنیادوں پر یا کچھ بھی۔ اس لیے کچھ حلقوں کی جانب سے تجویز پیش کی گئی کہ ایک ایسی تنظیم ہونی چاہیے جو انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں اشتراک فراہم کرے اور اسے ایک سویلین ادارہ ہونا چاہیے۔ بنیادی مسئلہ سویلین ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ صوبے بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہے۔ اس لیے پہلے تو سویلین انٹیلی جنس بیورو اور دیگر سویلین ایجنسیوں کو معلومات کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرنا چاہئے۔ نیکٹا کی ضرورت اسی لحاظ سے ہے کہ حکومت کو مختلف پالیسی فیصلوںکے نفاذ کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے کوئی نگران ادارہ نہیں ہے۔ دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول کے واقعے کے بعد دہشت گردی کے انسداد کے لیے 20 نکاتی قومی ایکشن پلان کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تھا۔اس نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل نہیں ہو پایا۔جب کبھی کوئی بڑا المیہ ہوتا ہے تو نیشنل ایکشن پلان کا پھر سے نام سننے میں آتا ہے،پھر خاموشی ہو جاتی ہے۔قبائلی ضلع کرم میں چند روز قبل دل دہلا دینے والے واقعات ہوئے ہیں۔وزیر اعلی علی مین گنڈا پور نے وفاق سے ایف سی دستے بھیجنے کی درخواست کی جس پر تین دن کے بعد بھی کوئی فیصلہ نہیں ہو پایا ۔یہ علاقہ کئی سال سے آتش فشاں بنا ہوا ہے،وقفے وقفے سے خوفناک لڑائی پھوٹ پڑتی ہے۔افغانستان سے مداخلت ، دشمن قوتوں کی سازشیں، قومی یکجہتی پر وار، معاشی زندگی کو نشانہ بنانا اور ملک کو مسلسل بحرانوں میں دھکیلے رکھنا ایک مستقل منظر نامہ بن چکا ہے۔اس صورت حال میں قومی سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے جس کردار کو ادا کرنا چاہئے وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔بلاول بھٹو زرداری سب سے بڑی حکومتی اتحادی جماعت کے سربراہ کے طور پر قوم کو تقسیم کرنے والی فالٹ لائنز سے واقف ہیں ،انہیں آگے بڑھ کر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے۔
٭٭٭