”پاک و ہند دو بھائی ”

0
4

تقسیمِ برِ صغیر پاک و ہند کے وقت یعنی میں پاکستان کا وجود دو بھائیوں کی صورت میں عمل میں لایا گیا۔ ایک طرف مشرقی پاکستان کی صورت میں سونار بنگلہ کا دیش تھا اور دوسری جانب مغربی پاکستان کی شکل میں کراچی سے خیبر تک کا وسیع علاقہ۔ قدرتی وسائل کے اعتبار سے دونوں صوبے تقریبا ایک جیسے ہی تھے لیکن عسکری طاقت کے لحاظ سے مغربی پاکستان، بالکل ایک بڑے کی بھائی طرح کافی مضبوط ثابت ہوا۔ زبان و ثقافت کے لحاظ سے بھی دونوں بھائی زیادہ قربت نہیں رکھتے تھے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ دونوں بھائی دوستی کے رشتے کی بنیاد ڈالتے اور ثقافت کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے قریب آجاتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ مولانا حالی نے بالکل صحیح اور کیا خوب فرمایا تھا کہ!
آرہی ہے چاہِ یوسف سے صدا
دوست یار تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
دونوں بھائیوں کے درمیان رشتوں کی ناہمواریوں نے بالآخر انہیں ایک ایسے مقام تک پہنچا دیا جہاں بھائی چارا اور دوستی، دشمنی میں بدل گئی۔ بیرونی مداخلت نے جلتی پر کچھ مزید تیل ڈالا۔ بڑا بھائی بڑا ہوتے ہوئے بھی بڑے پن کا مظاہرہ نہ کر سکا۔ چھوٹا بھائی بیرونی سازشوں کا ایسا شکار ہوا کہ دور اندیشی سے کام نہ لے سکا اور تعصب و نفرت کی بھینٹ چڑھ گیا۔عسکری اسٹیبلشمنٹ سے تو لوگ نالاں رہتے ہی ہیں لیکن مشرقی اور مغربی پاکستان میں آپس کی دوریاں اتنی بڑھیں کہ ایک متحدہ پاکستان کی حامی، بڑی مذہبی سیاسی پارٹی کے بنگلہ دیشی سربراہ کو سقوط مشرقی پاکستان کے کچھ عرصے بعد یہ کہنا پڑا کہ تقسیم سے نقصان تو بہت ہوا لیکن کم از کم ہمیں اپنی ہی پارٹی کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے تو نجات مل گئی۔ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ، مغربی پاکستان کے بڑے بزنس خاندان بھی مشرقی پاکستان والوں کو کوئی بڑی اہمیت نہیں دیتے تھے۔پاکستان کے ٹوٹنے سے انڈیا کی ہندوتا کے عزائم کو بڑی تقویت ملی اور اس نے بنگلہ دیش کی ریاست کے اہم حصوں میں اپنے ناپاک مقاصد حاصل کرنے کیلئے پہلے سے زیادہ موثر انداز میں کام کرنا شروع کردیا۔ انڈیا نے سونار بنگلہ کی دولت اپنے ہاں منتقل کرنے کیلئے بڑا ظالمانہ نظام بنایا۔ چین کے خلاف بھی بنگلہ دیش کی سرزمین کو استعمال کرکے اپنے ناجائز مقاصد حاصل کئیے۔ ان سارے ناپاک کاموں کیلئے، انڈیا کو پچھلے پندرہ سال سے شیخ حسینہ کی غیر مشروط حمایت حاصل رہی۔ اس ڈکٹیٹر شپ نے اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ کو ایسے جکڑا کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ آخرِکار، تنگ آمد، بجنگ آمد کے اصول کے تحت عوام الناس نے ڈکٹیٹرشپ کا تختہ الٹ دیا۔ جوابا انڈیا کی ہندتوا نے دریاں کے بند دروازے اچانک کھول دئیے اور بنگلہ دیش کو سیلاب کی شکل میں ایک بہت بڑی آفت سے دوچار کردیا۔امریکی مسلمانوں کا قائم کردہ ادارہ، زکوا فانڈیشن، پچھلے پندرہ سالوں سے بنگلہ دیش میں رفاہی کام کر رہا ہے۔ سیلاب کی اس آفت سے نبٹنے کیلئے انہوں نے فوری طور پر فنڈز جمع کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ پاک-بنگلہ موجودہ صورتحال کے عنوان سے اب تک ڈیلاس، ہیوسٹن، شکاگو، سراکیوز، نیو یارک اور نیوجرسی میں فنڈریزنگ ایونٹس منعقد کرکے عطیات جمع کیئے جارہے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان صحافی/انفلوئنسر عبدالقادر اور سیکورٹی امور کے ماہر بنگلہ دیشی صحافی عمران انصاری، ان پروگرامات میں شریک ہوکر لوگوں تک تازہ معلومات بھی پہنچاتے ہیں اور فنڈز کی اپیل بھی کرتے ہیں۔بنگلہ دیش اور پاکستان سے آکر امریکہ میں آباد ہونے والے، ان امریکیوں کی یہ مشترکہ محفلیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ تاریخ اب ماضی میں جاکر، ان دو ملکوں کو ایک تو نہیں کرسکتی لیکن اس ساری جدوجہد سے جو سبق سیکھے گئے ہیں، ان کی روشنی میں، دونوں ملکوں کو مشترکہ مفادات حاصل کرنے کیلئے اکٹھے مل کر کام کرنے پر آمادہ ضرور کر سکتی ہے۔ مولانا حالی نے اپنی مسدس میں بڑی شاندار نصیحت سے ہمیں نوازا مگر قوم شاید یہ سب کچھ بھول چکی ہے۔
یہ پہلا سبق تھا کتا ب ہدی کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
وہی دوست ہے خالقِ دوسرا کا
خلائق سے رشتہ ہے جس کو وِلا کا
یہی ہے عبادت، یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
انقلابِ بنگلہ دیش کے بعد جو عارضی حکومت بنی ہے، اس پر اب بھاری ذمہ داریاں عائد ہیں۔ قوم ایک ایسے نئے آئین کا مطالبہ کر رہی ہے جو ملک کو سیاسی اور معاشی استحکام دے سکے۔ اس عارضی حکومت کے سربراہ کا بیشتر تجربہ ایک بڑی NGO کو کامیابی سے چلانا رہا ہے، اسی لئے امید یہی ہے کہ غریبوں اور ناداروں کیلئے ایک بہتر نظام بنایا جائے گا۔ ورنہ اشرافیہ کے بنائے ہوئے قوانین تو ان کی اپنی کرپشن اور چوہدراہٹ کو بچانے کیلئے بنائے جاتے رہے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں انقلاب آچکا ہے اور پاکستان میں بہت جلد آنے والا ہے۔
احمق پھپھوندوی صاحب نے بالکل صحیح نقشہ کھینچا ہے۔
یہ کہہ رہی ہے اشاروں میں گردش گردوں
کہ جلد ہم کوئی سخت انقلاب دیکھیں گے
نظام چرخ میں دیکھیں گے اک تغیر خاص
سکون دہر میں اک اضطراب دیکھیں گے
خدا نے چاہا تو اب جلد ہی وطن والے
وطن میں اپنا مشن کامیاب دیکھیں گے
دعائیں کی ہیں جو اہل وطن نے رو رو کر
یقیں ہے جلد انہیں مستجاب دیکھیں گے
زمانہ آنے ہی والا ہے جب ہم اے ظالم
تجھے بھی خوار تجھے بھی خراب دیکھیں گے
بہت ہی جلد ترے سر پہ بھی خدا کی قسم
خدا کا قہر خدا کا عتاب دیکھیں گے
تجھے بھی دیکھیں گے مجبور فاقہ و افلاس
تجھے بھی قید غم و اضطراب دیکھیں گے
تجھے بھی اپنی طرح جلد ہی بفضل خدا
اسیر سلسل پیچ و تاب دیکھیں گے
تجھے بھی اپنی طرح پائے بند نالہ و آہ
یوں ہی مجال تباہ و خراب دیکھیں گے
یہ دیکھنا ہے جو کچھ ہم کو اس میں دیر نہیں
بہت ہی جلد بہت ہی شتاب دیکھیں گے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here