کراچی(پاکستان نیوز) کرونا کی کوئی باقاعدہ اور مستند دوا موجود نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگ دیگر طریقہ علاج کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں جن میں ہومیوپیتھک، طب یونانی، آئیوویدک، قدیم چینی طریقہ علاج اور جڑی بوٹیاں شامل ہیں۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر کئی ٹوٹکے بھی ان دواو¿ں کے ساتھ پوسٹ کیے جا رہے ہیں کہ یہ وائرس کا بہترین علاج ہے۔ صحت کے عالمی ادارے نے حال ہی میں ان ٹوٹکوں کے متعلق خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہو سکتا ہے اور یہ کہ لوگ معالج کے مشورے کے بغیر کسی ٹوٹکے یا دوا کا تجربہ کرنے سے باز رہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک ایسے ہی ٹوٹکے پر عمل کرنے سے ایران میں تقریباً تین سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ عالمی ادارہ صحت کے ترجمان طارق جاسارویک نے کہا ہے کہ ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ بہت سے لوگ متبادل دواو¿ں کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن وہ کرونا وائرس کا علاج نہیں ہے۔ حملہ اگر سخت نہ ہو تو ان دواو¿ں سے کچھ علامتوں میں قدرے آرام مل جاتا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے دو سب سے گنجان آباد ملکوں، چین اور بھارت میں بہت سے لوگ کرونا وائرس جیسی علامتوں کے علاج کے لیے متبادل دوائیں استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ کم آمدنی، کم علمی اور قدیم طریقہ علاج پر نسلوں سے قائم اعتماد ہے۔ یہ صورت حال صرف چین اور بھارت میں ہی نہیں ہے بلکہ افریقہ سمیت ان ملکوں میں بھی پائی جاتی ہے جہاں علاج معالجے کی مناسب سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ان ملکوں میں حکومتیں بھی متبادل طریقہ علاج کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔