آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لئے پاکستان نے دوست ممالک سے ضمانت حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔آئی ایم ایف کی جانب سے حکومت کی یقین دہانیوں اور جائزہ رپورٹس پیش کئے جانے کے باوجود قسط جاری نہ کرنا فکر مندی کا باعث بن رہا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کے دفتر اور وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے رابطہ کیا ہے۔رپورٹس کے مطابق دونوں برادر ملکوں نے جواب دینے کے لئے وقت مانگا ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان میں ڈیپازٹ کرائے گئے ڈالروں کو خاص مدت تک واپس نہ لینے کی ضمانت دیں۔دونوں ملکوں کی جانب سے یہ ضمانت ملنے کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھنے کا امکان ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے اس ضمانت کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ پاکستان پورے مالیاتی سال کے دوران ادائیگیوں کے توازن کو بحال رکھ سکے گا۔ آئی ایم ایف اپنے مالیاتی جائزے کی شرائط مکمل کر کے پاکستان کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھانا چاہتا ہے۔یہ جائزہ رپورٹ عالمی مالیاتی فنڈ کے بورڈ نے منظور کر لی تو 2009 میں طے پانے والے 6.5ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کی اگلی قسط کے 1.1ارب ڈالر پاکستان کو فراہم کر دیے جائیں گے۔عالمی مالیاتی فنڈ کا یہ بیل آئوٹ پیکیج رواں برس 30جون کی مدت تک پورا ہو جائے گا۔آئی ایم ایف حکام کا کہنا ہے کہ ادارہ تمام پروگراموں کے جائزے میں پختہ اور قابل اعتماد یقین دہانیوں کو اہمیت دیتا ہے تاکہ قرض لینے والے ممبر کی ادائیگیوں کے توازن کو مکمل طور پر مالی اعانت فراہم کرنے کے لئے معقول مقدار میں فنڈز کا انتظام کیا جا سکے۔آئی ایم ایف حکام کے مطابق پاکستان اس نوع کے جائزوں اور یقین دہانیوں سے ماورا نہیں۔ان کے مطابق پاکستان نے بیرونی فنانسنگ کے علاوہ تقریبا تمام مطلوبہ اقدامات پر عملدرآمد مکمل کر لیا ہے۔ جوں جوں پاکستان کی معیشت کمزور ہو رہی ہے عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط اور ضابطے تبدیل ہوتے نظر آتے ہیں۔ماضی بعید میں پاکستان قرض کی درخواست کرتا اور چند ہفتوں کے بعد سارا معاملہ طے پا جاتا۔پھر اس عمل میں پاکستان کے ذرائع آمدن اور خرچ کے حسابات کا جائزہ لیا جانے لگا۔یہ دیکھا جانے لگا کہ پاکستان اگر قرض واپس نہ کر سکے تو اس کے کون سے اثاثے گروی رکھے جا سکتے ہیں۔افسوسناک صورت حال یہ رہی کہ موٹر وے اسلام آباد ایئر پورٹ اور دیگر کئی منصوبے رہن رکھے جانے کے بعد بھی حکومتوں کی مالیاتی پالیسیوں میں بہتری نہ آ سکی۔ حکمران طبقات ملک کے 70فیصد مالیاتی وسائل پر قابض ہیں۔یہ طبقات ملکی دولت بیرون ملک لے جاتے ہیں۔جان بوجھ کر بینکنگ نظام میں ایسی خامیاں رکھتے ہیں جو ان کے کام آتی رہیں۔ ان خامیوں کی وجہ سے مالیاتی نظم قائم نہیں ہو پاتا۔ افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تو دہشت گردوں کو رقم کی ترسیل کا نظام ختم کرنے پر غور کیا گیا۔پاکستان سب سے زیادہ مشکوک تھا اس لئے اس کے مالیاتی نظام پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی گئیں۔عالمی مالیاتی ادارے جب کسی قرض پر بات چیت کرتے ایسی شرائط تھما دیتے۔پاکستانی معیشت جو آزاد رو ہو چکی تھی اس کے لئے یہ پابندیاں اور خود کو دستاویزی بنانا مشکل کام تھا۔اس جنگ کے اختتامی برسوں میں پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار رکھ دی گئی۔ایف اے ٹی ایف کی شرائط پورا ایک پیکیج تھا جس پر تحریک انصاف کی حکومت نے پاک فوج کے خصوصی سیل کے ساتھ مل کر کام کیا اور پاکستان کو گرے لسٹ سے نجات ملی۔ پی ڈی ایم اتحاد اقتدار میں آنے سے پہلے معاشی بہتری لانے کے لئے بڑے بڑے دعوے کرتا رہا ہے۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت تحریک انصاف کی حکومت کو مہنگائی روپے کی قدر میں کمی اور معاشی تباہی کی ذمہ دار قرار دیتی رہی ہیں۔ ریکارڈ بتا رہا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد پی ڈی ایم حکومت اچھی کارکردگی کی امیدیں پوری نہیں کر سکی۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے 11ماہ کے دوران اکثر وقت دوسرے ملکوں کے دوروں میں گزارا ہے۔دو ماہ پہلے وزیر اعظم ان کی محنت، خارجہ امور میں دلچسپی کی تعریف کر رہے تھے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں امریکہ کے ساتھ تعلقات سب سے اہم ہیں کیونکہ بین الاقوامی نظام امریکہ کے آرڈر کی پیروی کرتا ہے۔پھر سعودی عرب متحدہ عرب امارات چین ،یورپی ممالک اور بھارت کے امور ہیں۔سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور چین بار بار پاکستان کی مدد کو آ رہے ہیں۔ ان ملکوں نے زرمبادلہ کی کمی پوری کرنے کے لئے پاکستان کے خزانے میں معقول حجم میں ڈالر جمع کرا رکھے ہیں۔اس دوران آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ محض اس وجہ سے آگے نہیں بڑھ پا رہا کہ حکومت ملک میں سیاسی اور مالیاتی استحکام پیدا کرنے میں اب تک ناکام دکھائی دیتی ہے۔وزیر اعظم ،وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کی اگر کسی سلسلے میں کامیابی ہے تو وہ نظر نہیں آ رہی۔آئی ایم ایف کی شرائط کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے ۔ایک مرحلہ مکمل ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہو جاتا ہے ۔ہر بار عام آدمی پر دبائو بڑھ جاتا ہے اور حکمران طبقات اپنا دامن بچا کر نکل جاتے ہیں۔
٭٭٭