پاکستان کے سابقہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو جب ایک آمر اور جابر قابض اور غاصب حکمران جنرل مشرف کی نافرمانی اور غیر قانونی حکم عدولی پر عہدے سے برطرف کیا گیا تو پاکستان کی پہلی مرتبہ متحد اور منظم وکلاء تحریک نے جنم لیا جو اندرون اور بیرون ملک پھیل گئی جس کے اثرات امریکہ، برطانیہ، بھارت اور دوسرے مہذب اور جمہوری ریاستوں کی وکلاء تنظیموں اور بازوں پر پڑے کہ جس کی حمایت میں انٹرنیشنل امریکن بار، نیویارک بار، لندن بار اور بھارتی بارز نے سڑکوں پر احتجاج کیا جس میں پاک امریکن وکلاء برائے حقوق نے تنظیم نے امریکہ میں وکلاء تحریک کی بنیاد رکھی جس کے زیراہتمام لاتعداد احتجاجی جلسے جلوسوں سیمیناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد ہوا جس سے پاکستانی ججوں، چیف جسٹس افتخار چوہدری، جسٹس وحید الدین، جسٹس مقبول باقر، جسٹس رمدے، جسٹس باقر نجفی، جسٹس غوث محمد جسٹس سرمد جلال عثمانی کے علاوہ پاکستانی وکلاء قیادت حامد خان، چوہدری اعتزازاحسن، منیر اے ملک، علی احمد کرد، امان اللہ کنزانی، رانا ضیاء الرحمان، شمیم ملک، بابر مرتضٰے خان، یاسین آزاد ، عاشق رضا اور دوسرے رہنمائوں نے خطاب کیا تھا جن کا واحد نظریہ قانون کی بالاتری اور آئین کی بالادستی تھا جس کے دو سالہ طویل انتھک محنتوں سے سولہ مارچ2009کو پوری برطرف عدلیہ اور دو مرتبہ برطرف چیف جسٹس افتخار چوہدری غیر مشروط طور پر بحال ہوئے جنہوں نے واپس آکر جون2009کو ہی جنرل مشرف کے خلاف فل بنچ بنا کر سندھ ہائی کورٹ بار کی درخواست پر جنرل مشرف کے تمام غیر قانونی اور غیرآئینی ا قدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ جنرل مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ قائم کیا جائے جو ہوا جس میں آٹھ سال کے بعد سپریم کورٹ کی تشکیل کہ وہ خصوصی عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں ایک تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے جنرل مشرف کو سزائے موت سنا دی جس پر فوجی ایوانوں میں ماتم بیچ گیا جس کا ہر کارہ عمران خان ماتم کرتا ہوا نظر آیا جنہوں نے جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف کردار کشی کی تحریک کا آغاز کیا۔ عمران خان کے وزیروں اور مشیروں نے لاہور ہائی کورٹ جو بدنام زمانہ عدلیہ کے ناموں میں سرفہرست ہے ان کے ایک جنرل فیض حمید کی کٹھ پتلی جج مظاہر نقوی جو آجکل اپنے خلاف کرپشن میں لت پت ہے۔ انہوں نے اپنی سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپنا فیصلہ دیا کہ خصوصی عدالت ہی غیر آئینی تھی لہٰذا جنرل مشرف کے خلاف فیصلہ بھی غیرقانونی ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ سپریم کورٹ اور خصوصی عدالت دونوں مجوزہ جج صاحب سے عدالت سے جونیئر تھی جس کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ کے تہہ خانوں میں پڑی ہوئی ہیں جس پر آنے والی عدالت فیصلہ کریگی۔ کہ جنرل مشرف مجرم یا معصوم تھے۔ تاہم وکلاء تحریک اب کمزور پڑ چکی تھی۔ وہ وکلاء جنہوں نے وکلاء تحریک کی مخالفت کی تھی وہ آج پیش پیش نظر آرہے ہیں جس میں بابر اعوان علی ظفر، نعیم بخاری اور فواد چودھری جو آج عمران خان کی وکالت کرتے نظر آرہے ہیں جو کل جنرل مشرف کے وکیل تھے۔ وکلاء تحریک کی اصلی قیادت چودھری اعتزازاحسن، علی احمد کرد اور حامد خان، منیر اے ملک، رشید رضوی یاسین آزاد بھون احسن، عابد ساقی اور دوسرے رہنمائوں میں بے تحاشہ اختلاف پائے جاتے ہیں جن کے اپنے اپنے گروپ میں جو غیر نظریاتی ہیں جن کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے جو ہر سال کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن لڑتے ہیں پھر ان ججوں کی حمایت کرتے ہیں جو جنرلوں کے نامزد ہیں۔ جس کی تازہ مثال ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ کا ٹولہ ہے۔ جو عدلیہ کو تہس نہس کر رہا ہے جو ہر بینچ میں مافیا بن چکا ہے۔ جن کے خلاف کوئی وکلاء تحریک نہیں چل رہی ہے کے یہ پانچ کا ٹولہ ایک آمر اور چار جنرل کا روپ اپنا چکا ہے جس پر سپریم کورٹ بار احتجاج کرنے کی بجائے مجوزہ ٹولے کی حمایت کر رہی ہے۔ پورے کے وکلاء بھی بکھر چکے ہیں جو وکلاء تحریک کے پلیٹ فارم پر بلاتفریق متحد ہونے تھے۔ جو اب اس قابل نہیں رہے ہیں کہ کل کلاں کوئی پھر جنرل ملک پر قابض ہو جائے تو یہ وکلاء کیا کریں گے۔ یہ ہے وہ لمحہ فکریہ جس پر غور کرنا ہوگا۔
٭٭٭