جناب ارشد ملک صاحب : آپ اکثر اپنی واٹس ایپ پر اپنی کتاب ”حاضر اللہ سائیں” میں سے ایمان افروز اقتباسات لگاتے رہتے ہیں جنہیں میں بصد شوق پڑھتا ہوں۔ آپ کے جذب ایمانی کی قدر کرتا ہوں۔ یہ روحانی تحریر قابلِ صد ستائش ہے۔ اللہ پاک آپ کا حج قبول فرمائے ۔ حج اور عمرہ کی سب مسلمانوں کو سعادت نصیب فرمائے۔ آمین مگر سوال پیدا ہوتا ہے کیا مسلمان جو دورانِ طواف اللہ سے وعدہ کرتے ہیں اس کے مفہوم کو بھی سمجھتے ہیں؟ کیا وہ اس اعلامیہ پر عمل بھی کرتے ہیں؟ کاش مسلمان لبیک اللہم لبیک کے مقصد اور روح کو بھی سمجھیں جس کا مطلب ہے، اے اللہ میں حاضر ہوں۔ آپ نے اپنی کتاب کا عنوان بھی حاضر اللہ سائیں رکھا ہے جو درست ہے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے ہم کس کام کے لئے حاضر ہیں؟ سیدھا سادہ جواب ہے کہ ہم اللہ کے دیئے ہوئے دین یعنی اسلامی نظام کے قیام کے لئے حاضر ہیں۔ جہاں پر حج ہو رہا ہے وہاں بد ترین ملکوکیت اور آمریت ہے۔ اسلام کا نظامِ خلافت جسے آج کی سیاسی اصطلاح میں اسلامی جمہوریت کہتے ہیں کہاں ہے؟ مساواتِ محمدی کہاں ہے؟ نظامِ عدل و انصاف کہاں ہے؟ جذب جہاد کہاں ہے؟ اسلامی اتحاد کہاں ہے؟
آج جس بیدردی سے غزہ/ فلسطین میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے مسلمان حکمران سوئے ہوئے ہیں اور تماشائی ہیں۔ مسلمان حکمران عالمی استعمار کے غلام ہیں۔تیل کی دولت ہے مگر دماغ نہیں۔ جدید سائنسی تعلیم اور تقاضوں سے نابلد اور بے خبر ہیں۔فرقہ واریت، ملائیت ، خانقاہیت اور رجعت پرستی کا شکار ہیں۔ جب تک مسلمانوں میں اتحاد پیدا نہیں ہوتا، روشن فکری نہیں آتی، سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت نہیں ہوتی، بادشاہت کا خاتمہ نہیں ہوتا، اِن کو کوئی طاقت تباہی و بربادی سے نہیں روک سکتی۔قانونِ فطرت کی تعزیریں بڑی سخت ہیں۔ صرف دعاں سے بلائیں نہیں ٹلتیں۔ قرآنِ مجید کا اٹل فیصلہ ہے۔ اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں،لبیک اللہم لبیک کے کچھ عملی تقاضے بھی ہیں ۔ آج ظلم کے خلاف جہاد اِس کا سب سے اہم تقاضا ہے۔
جناب شاہد مسعود صاحب
میری ڈاکٹر ایوب مرزا صاحب سے چند ملاقاتیں فیض احمد فیض اور پروفیسر خواجہ مسعود صاحب کے ساتھ ہوئیں ۔ میں نے ان کی کتاب ہم کہ ٹھہرے اجنبی کا مطالعہ کیا ہے جو دلچسپ کتاب ہے اور فیض صاحب سے گفتگو اور ان سے مکالمات پر مبنی ہے جو کوہ مری کے قریب پروفیسر خواجہ مسعود مرحوم کے بھائی کے گھر گرمیوں کے چند دن گزارنے میں ہوئیں ۔یہ بات مجھے خواجہ مسعود صاحب نے خود بتائی تھی۔