جنگ بندی یا جنگی جرائم !!!

0
16
رمضان رانا
رمضان رانا

موجودہ صدی میں زمین فلسطین پر صہیونی طاقت نے مسلسل حملوں سے دنیا کی قدیم ریاست کو دنیا کا سب سے بڑا قبرستان بنا دیا ہے کہ یہاں اب تک گیارہ ہزار انسان مارے جاچکے ہیں جس میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہے جس پر اب تک کوئی قوت نہیں اٹھی ہے جو نہتے بے بس اور بے کس انسانوں کو صہیونیت سے نجات دلا سکے۔ حالانکہ دنیا بھر میں صہونیت کے خلاف احتجاج جاری ہیں جس میں بلاتفریق مذہب، نسل رنگ شرکت کر رہے ہیں۔ خاص طور پر صہونیت کے واشنگٹن ڈی سی نیویارک، لندن قابل ذکر ہیں انہیں حکومتی وزیروں اور مشیروں نے اسرائیلی حکمرانوں پر جنگی جرائمز کا مطالبہ بھی کیا ہے جس میں سائوتھ افریقہ کی وزیر خارجہ پیش پیش ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمران بھی جنگ بندی وغیرہ کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ34ممالک کی فوج اور ان کے سپہ سالار راحیل شریف خاموش نظر آرہے ہیں جن کے بارے میں اب تک پتہ نہیں چل سکا ہے کہ234تک کی فوج کس کے خلاف بنائی گئی تھی جن کے سامنے فلسطینی عوام کا قتل عام ہو رہا ہے۔ جنپر حملہ آور صہیونی فوج فلسطین پر گزشتہ76برسوں سے ناجائز قابض ہے۔ تاہم بعض ممالک کے حکمرانوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے جس کا جواز سمجھ سے باہر ہے کہ جنگ بندی کس سے کی جائے کیا فلسطین کے پاس باقاعدہ کوئی تسلیم شدہ فوج ہے۔ جنگ بندی دو فوجوں کے درمیان ہوتی ہے۔ فلسطین کے پاس کوئی فوج نہیں ہے یہاں لوگ اپنی چھنی ہوئی ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیںجو ایک آزاد اور خودمختار ملک تھا جس کی وجہ سے ان پر صہونیت اپنے جدید طیاروں، بموں، میزائیلوں، ٹینکوں اور تاپوں سے حملہ آور ہوئی ہے۔ جن پر ماسوائے جنگی جرائم کے علاوہ کوئی مقدمات نہیں بنتے ہیں جس سے آنکھیں چرائی جارہی ہیں لہذا جو لوگ جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ دراصل اسرائیل کو ایک جائز ریاست مانتے ہیں اور فلسطین کی کھوئی ہوئی ریاست کو تسلمی نہیں کرتے ہیں بہرحال آزادی کی جنگ تب تک جاری رہتی ہے جب تک لوگ آزادانہ ہوجائیں۔ دنیا بھر کی نو آبادیاتی نظام کے حکمرانوں غاصیوں اور قابضوں کے خلاف دنیا بھر میں تحریکوں نے جنم لیا جس میں آخر کار برطانوی فرانسیسی، اطالوی، ہسپانوی، ولذیزی پرتگائی نو آبادیاتی طاقتوں کو ایشیائی افریقی، سائوتھ اور نارتھ امریکی ریاستوں کو چھوڑنا پڑا جس میں براعظم امریکہ، افریقہ، ہندوستان، انڈونیشیا، ابحرائر، سائوتھ افریقہ، آئرلینڈ اور درجنوں ممالک کی آزاد کرنا پڑا تھا۔ جبکہ فلسطین پروشلم کے عوام کو پہلے درجنوں نے غلام بنایا۔ پھر صلیبی حملہ آوروں نے تین سو سال تک خون بہایا تھا جن کو صلاح الدین ایوبی نے آزادی دلوائی تھی۔ سائوتھ افریقہ پر یورپین نے تین سو سال تک قبضہ رکھا جن کا پچھلی صدی میں خاتمہ ہوا۔آئرلینڈ کو بھی تین سو سال تک ایک طویل جنگ لڑنا پڑ تھی۔ لہذا فلسطین کی آزادی میں دیر ہے مگر سویرا بہت جلد آئے گا۔ جس کا ثبوت امریکی واحد طاقت دنیا کے سامنے ہے کہ اسے ویت نام اور افغانستان سے بھاگنا پڑا لہٰذا وہ دن دور نہیں ہے جب صہونیت فلسطین چھوڑ کر بھاگے گی جس کو دنیا بھر میں پناہ نہیں ملے گی۔ آج پھر جنگ عظیم دوم والے حالات پیدا ہوچکے ہیں۔ کل ہٹلر نو آبادیات کے نظام کیخلاف بول رہا تھا جن کی آزادی کی خاطر ہندوستانی قیادت گاندھی جی ملے تھے آج آزادی اور خودمختاری کے لئے زخمی عوام فلسطینی عوام کسی نجات دھند کے منتظر ہیں جو نہ جانے کہاں سے آئے گا جو قبلہ اول کو آزاد بھی کرائے گا، یہ مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here