مسلم ریاستوں کا فلسطین کے مسئلہ پر فکر مند ہونا اور فلسطینیوں کی شہادت پر دکھ کا اظہار کرنے تک خود کو محدود رکھنا ان کی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔ایسی کانفرنسوں سے فلسطینیوں کی اشک شوئی نہیں ہو سکتی۔ اکتوبر سے غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 12 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے جن میں 4 ہزار 324 بچے اور 2 ہزار 823 خواتین شامل ہیں جب کہ حماس کی کارروائیوں میں مارے گئے اسرائیلیوں کی تعداد تقریبا 1,600 ہوگئی۔ دوسری طرف غزہ پر ایک ماہ سے جاری اسرائیلی حملوں میں 59 مساجد بھی شہید ہو چکی ہیں، اسرائیلی بمباری میں تاریخی اہمیت اور قومی ورثے کی حیثیت کی حامل 4 مساجد سمیت اب تک 59 مساجد شہید ہوچکی ہیں جب کہ سوا سو سے زائد مساجد کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق فلسطین اتھارٹی کی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دو روز قبل اسرائیلی طیاروں نے خان یونس کے علاقے میں خالد بن ولید مسجد پر بمباری کی۔ اسرائیلی فوج کی بمباری سے پوری مسجد چند سیکنڈوں میں ہی مکمل طور پر تباہ ہوگئی جب کہ خان یونس کے ہی علاقے میں ایک اور مسجد الاخلاص کو بھی تباہ کردیا گیا۔ فلسطین اتھارٹی کی وزارت داخلہ کے مطابق اس حملے کے بعد سے اسرائیلی بمباری میں مکمل طور پر تباہ ہونے والی مساجد کی تعداد 59 ہوگئی جب کہ 136 مساجد اور 3 گرجا گھروں کو جزوی نقصان بھی پہنچا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کسی بھی جنگ میں عبادت گاہوں کو استثنی حاصل ہوتی ہے۔ یہ محفوظ مقام میں شمار ہوتے ہیں لیکن اسرائیل نے تمام جنگی اصولوں کو قدموں تلے روند ڈالا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب میں او آئی سی اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے سمیت متعدد مطالبات پیش کئے گئے ہیں۔اجلاس کے چئیرمیں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ غزہ کی لڑائی میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے القدس کو ریڈ لائن قرار دیا۔پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بجا طور پر نشاندہی کی کہ فلسطینیوں کا قتل عام رکوانے کی ذمہ داری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر ہے۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اسلامی ممالک سے کہا کہ وہ اسرائیل پر پابندیاں لگائیں۔سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں جس امر پر سب کا اتفاق ہوا وہ غزہ میں جنگ بندی کے بعد امداد فراہم کرنا ہے۔او آئی سی اور عرب لیگ کے اس اجلاس کو فلسطینیوں کی اخلاقی مدد سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔اس وقت اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور اس کے سر پرست ممالک کی سفاکیت کے پیش نظر توقع کی جارہی تھی کہ مسلم ریاستیں جنگ بندی، اسرائیل کے خلاف عالمی کارروائی، اسرائیل کے معاشی و سفارتی بائیکاٹ اور اس کی مدد کرنے والے ملکوں کے متعلق کسی مشترکہ ایجنڈے پر اتفاق کر لیں گے۔اختتامی اعلامیہ کو دیکھتے ہوئے اجلاس کو مایوس کن قرار دیا جا سکتا ہے۔دنیا کے ستاون مسل ممالک کے اجلاس پر عالمی ذرائع ابلاغ گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔مسلم ریاستوں کے حکمران جو بات سمجھنے اور کہنے سے گریزاں ہیں وہ ذرائع ابلاغ اپنے تبصروں میں کہہ رہے ہیں۔ان تبصروں میں کہا جا رہا ہے کہ طور پر روکنا ہو گا ورنہ پورا خطہ اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اجلاس میں کہا کہ فلسطینی عوام کی نسل کشی جاری ہے۔ انھوں نے فلسطین کے لیے عالمی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ایران کے صدر ابراہیم ریئسی نے سعودی عرب کے اپنے پہلے دورے کے موقع پر کہا کہ اسرائیلی فوج کو دہشتگرد گروہ قرار دیا جائے۔ انھوں نے اس جنگ کو پھیلانے کے لیے امریکہ پر ذمہ داری عائد کی۔الجیریا نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک اپنے بے پناہ قدرتی و معاشی وسائل کی وجہ سے بلاشبہ اسرائیل پر دباو ڈالنے کی طاقت رکھتے ہیںلیکن ان ممالک کے باہمی اختلافات کی گہری خلیج نے انہیںکبھی بھی اس طاقت سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں رہنے دیا۔اجلاس میں دکھائی دیا کہ کچھ ممالک اسرائیل اور امریکہ کے خلاف زیادہ آگے جانے سے گریزاں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کانفرنس کے حتمی اعلامیے میں جن اہداف پر توجہ مرکوز رہی انہیں کم سے کم درجے کا کہا جا سکتا ہے۔ ان مطالبات میں جنگ بندی، اسرائیل کی مذمت اور فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی قبضے کا خاتمہ شامل ہیں۔فلسطینی عوام کو اخلاقی ہمدردی اور مطالبات سے زیادہ عملی اقدامات کی مدد درکار ہے۔یہ مدد مسل ریاستوں کے باہمی اتفاق سے ممکن ہو سکتی ہے۔ ریاض میں ہونے والا اسلامی ممالک کا اجلاس اپنی تاریخی نوعیت کے باوجود درحقیقت ایک سنگین اور گہری باہمی تقسیم کا نمونہ نظر آیا۔ بین الاقوامی سطح پر او آئی سی نے 57 مسلم ممالک کے لیے آواز اٹھاتے ہوئے امت مسلمہ کی واحد آواز کے طور پر کام کیا ہے، تاہم یہ تنظیم امہ کی امیدوں پر پوری اترنے سے محروم رہی۔ او آئی سی کی کمزوری داخلی ہم آہنگی کی کمی کی وجہ سے ہے۔ ایک ایسی تنظیم سے توقع کرنا غیرحقیقی ہے جس نے تقریبا چار دہائیوں سے مباحثے کے فورم اور بے معنی اعلانات کرنے کے پلیٹ فارم سے زیادہ کام نہ کیا ہو ۔کسی بہتر منصوبہ بندی اور ٹھوس مشاورت کے بنا یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ یہ تنظیم اچانک ایک فعال بین الاقوامی ادارے میں تبدیل ہو جائے گی۔ امت مسلمہ کو درپیش اہم مسائل فلسطین،کشمیر، دہشت گردی اور عالمگیریت کے حوالے سے لاحق ہیں، او آئی سی نے کوئی ٹھوس اقدام کیے بغیر محض رابطہ گروپس قائم کیے اور قراردادیں منظور کیں جو جارحین کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھیں۔ اس طرح مشکلات جوں کی توں رہیں۔او آئی سی کو دنیا بھر میں عملی طور پر کام کرنے کا ماڈل تیار کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے او آئی سی کو دنیا کی دیگر کامیاب تنظیموں جیسے یورپی یونین اور کونسل آف یورپ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ او آئی سی کو ہر جگہ عملی طور پر کام کرنے کے لیے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ او آئی سی اس مقصد کے لیے یورپی یونین اور شنگھائی کونسل، جی ٹونٹی اور نیٹو جیسی عالمی سطح پر کامیاب تنظیموں کی تقلید کر سکتی ہے۔ او آئی سی کی بڑی ناکامیوں میں اس کی داخلی ہم آہنگی اور اتحاد کا فقدان ہے کیونکہ رکن ممالک کے درمیان بین الریاستی اختلافات ہیں، مسلکی اختلافات، مغربی دنیا کے بڑے اثر و رسوخ ممالک کے ساتھ مخالفانہ خارجہ پالیسی اور علاقائی تنازعات ہیں۔ اسی طرح اسلامو فوبیا بڑھ رہا ہے ۔ مغربی دنیا میں اسلام کو لبرل ازم، جمہوریت، انفرادیت اور خواتین کی آزادی جیسی مغربی اقدارکے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ دہشت گردی نے اسلام کی ناپسندیدہ شبیہہ پیش کی ہے۔پر امن معاشروں میں تشدد اور خودکش حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات، فرقہ وارانہ تشدد اور مذہبی سیاسی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اسلام کے بارے میں منفی مغربی نقطہ نظر کو نمایاں کیا ہے۔
٭٭٭