250 افراد کو موت کی نیند سلانے والا ڈاکٹر ڈیتھ کیسے پکڑا گیا؟

0
42

نیویارک(پاکستان نیوز) دنیا بھر میں ڈاکٹر کو مسیحا کہا جاتا کیونکہ اس سے جان بچانے کی امید کی جاتی ہے، لوگ اس کے سامنے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہوتے ہیں لیکن ایک ایسا بھی ڈاکٹر ہوا ہے جسے تاریخ میں ڈاکٹر ڈیتھ یعنی موت کے ڈاکٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق ہیرالڈ شپ مین وہ شخص ہیں جنہیں ڈاکٹر ڈیتھ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے تقریبا اڑھائی سو مریضوں کو موت کی ابدی نیند سلا دیا، اگرچہ بہت سے لوگوں کو ان پر شک ہوا لیکن پولیس نے کبھی بھی اس سے تفتیش نہیں کی۔ ڈاکٹر ہرالڈ شپ انگلینڈ کے معروف علاقے گریٹر مانچسٹر میں پریکٹس کرتے تھے۔ وہ ایک ذہین نوجوان تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ الگ تھلگ رہتے تھے۔ انہوں نے 1972 اور 1998 کے درمیان دو مختلف ہسپتالوں میں کام کیا اور اسی دوران انہوں نے اپنے شکار کو انجام تک پہنچایا۔ اگرچہ انہوں نے کبھی بھی کسی جرم کا اعتراف نہیں کیا لیکن 1998 میں جب ڈاکٹر کے کرتوت سامنے آئی تو پورا برطانیہ سکتے ہیں آ گیا۔ ہسپتال کے بہت سے لوگوں نے ان پر اپنے شکوک و شبہات ظاہر کیے۔ ان میں ایک قبرستان کا کیئر ٹیکر بھی تھا جو کہ موت کی سرٹیفکیٹ کی تعداد سے حیران ہوا تھا۔ اسے ڈاکٹر شپ مین پر شبہ تھا۔ بہرحال کہا جاتا ہے کہ قاتل کتنا ہی ہوشیار کیوں نہ ہو وہ سراغ چھوڑ جاتا ہے۔ ہیرالڈ شپ مین پر براہ راست اس وقت الزام لگایا گیا جب ایک معمر خاتون کی اچانک ان کے گھر میں موت ہو جاتی ہے۔ شپ مین پہلے اپنے مریضوں میں ان بیماریوں کی تشخیص کرتے جو انہیں نہیں ہوتی تھی اور پھر وہ انہیں ڈائمورفین کی مہلک خوراک کا انجیکشن لگاتے تھے۔ شپ مین کے ہاتھوں مرنے والے زیادہ تر مریض معمر خواتین تھیں اور ان میں سے بیش تر کی موت رات کے بجائے دن میں ہوتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شکایت کے باوجود پولیس تفتیش کے دوران غلط راستے پر نکل جاتی تھی اور وہ اس وقت تک قتل کرتے رہے جب تک کہ ان کے دل میں لالچ نے گھر نہ کر لیا۔ انہوں نے اپنی ایک مریضہ کی وصیت بنوائی جس سے مرنے والی کی بیٹی کو شک ہو گیا۔ پھر انہوں نے نہ صرف چھان بین شروع کی بلکہ ڈاکٹر شپ مین کے خلاف پولیس میں شکایت بھی درج کر دی۔ ہیرالڈ شپ مین: ڈاکٹر ڈیتھ کے نام سے ان کی زندگی میں ہی ایک ٹی وی فلم بنائی گئی جس میں ان کے جرائم کو پیش کیا گیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here