خواجہ بندہ نواز گیسو دراز !!!

0
17

دوسری قسط
آپ کی کنیت ابوالفتح ہے اور آپ کے کئی ایک القاب ہیں، لیکن ان القاب میں لقب ”صدرالدین” بہت ہی مشہور رہا۔ اس لقب سے بھی زیادہ بلکہ زبان زد عام جو لقب ہے وہ ہے بندہ نواز، گیسودراز۔
گیسودراز لقب کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ ایک بار آپ اپنے مرشد گرامی حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی کی پالکی اپنے دوستوں کے ساتھ اٹھائے عشق و مستی میں چل رہے تھے کہ یک بیک آپ کے گیسو مرشد گرامی کی پالکی کے نیچے پھنس گئے۔ ہر چند کہ آپ کو بظاہر تکلیف ہو رہی تھی کیوں کہ گیسو کھنچے کھنچے ہوئے محسوس ہو رہے تھے لیکن اپنے مرشد پاک کا ایسا ادب وپاس محلوظ خاطر تھا کہ تکلیف برداشت کر لی لیکن گیسو کو پالکی سے نکالنے کے باجائے بدستور پالکی کے ہمراہ چلتے رہے چلتے رہے۔ شہر دہلی کے اندر یہ سفر کئی میلوں تک جاری رہا اور آپ نے اسی حالت میں ایک طویل فاصلہ طے کیا۔ آپ کی پیشانی مبارک پر ذرہ بھر شکن تک بھی نہیں آئی بلکہ مرشد کے ادب ومحبت میں شاداں وفرحاں اور اپنی خوش قسمتی پر نازاں رہے۔ جب آپ کے مرشد گرامی حضرت خواجہ چراغ دہلوی علیہ الرحمہ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ کی زبان فیض ترجمان سے فی البدیہہ یہ شعر صادر ہوا!
ہر کہ مرید سید گیسو دراز شد
واللہ خلاف نیست کہ اوعشق باز شد
مرشد گرامی کی مقدس زبان سے لفظ گیسو دراز کیا نکلا، حضور خواجہ بندہ نواز کے اسم گرامی کے ساتھ ایسا پیوست ہوا کہ گویا جزو لانیفک بن گیا۔ بلفظ دیگر یہی لفظ بطور لقب آپ کی شناخت بن گیا۔ اسی طرح آپ کے مرشد گرامی نے آپ کے قابل قدر جذبہ سخاوت کو دیکھ کر بندہ نواز لقب سے بھی نوازا۔ آپ کے مرشد گرامی کے عطا کردہ دونوں القاب بندہ نوازا اور گیسو دراز اس قدر مشہور ہوئے کہ لوگ آپ کا نام بھول گئے۔ جو بھی آپ کا تقریراًیا تحریراً ذکر کرتا ہے تو انہیں القاب سے۔ بھلا کیوں نہ ہو کہ یہ القاب عطا کردہ کس کے ہیں، اس کے ہیں سلطان القلم جیسے لقب سے ملقب کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی علیہ الرحمہ نے آپ کے انداز تصنیف وتالیف کی غیر معمولی خداداد لیاقت وصلاحیت کو دیکھتے ہوئے جہاں اس کار خیر کو جاری وساری رکھنے کی ہدایت کی تھی وہیں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا ”مرابہ تو کا راست ” یعنی مجھے تم سے کام لینا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here