اہل ِسود کی اسلامی جماعت!!!

0
34

ہماری آنکھوں کے سامنے افغانستان نے دنیا کے دو سوپر پاورز سوویت یونین اور امریکا سے یکے بعد دیگرے طویل جنگ کی، اور اس میں وہ کامیاب رہے لیکن یہ بھی معلوم رہے کہ اس سے قبل افغان قوم سیکڑوں سال سے اللہ اور اس کے رسول ۖ سے جنگ لڑ رہی تھی۔ پورے برصغیر میں اس کے سودی ساہوکار پھیلے ہوئے تھے اور سود پر رقم دیتے تھے۔ کسی میں جرات نہ تھی کہ کوئی ان کا سود ادا نہ کرے۔ علما اور صلحا ان کو اس سیروک نہ سکے۔
افغانوں پر یہ غلامی بلا سبب نہ آئی تھی۔ سوویت یونین اور امریکا نے مل کر افغانستان کو کھنڈر بنایا، لاکھوں انسان مارے گئے اور لاکھوں ہجرت پر مجبور ہوئے، لاکھوں اپاہج بنے۔ سود الٰہی نظام سے جنگ ہے، جو فرد یا قوم اس میں پڑی ، دیر یا سویر بربادی اس کا مقدر بنی ہے۔ جب مسلم امت کا کوئی گروہ اس میں پڑتا ہے تو اللہ کا غضب شدید ہوتا ہے۔ کسی لاڈلے کا بگاڑ غصہ کو تیز تر کردیتا ہے۔یہاں کینیڈا میں اقامت دین اور تحریک اسلامی کے مقصد سے قائم ایک جماعت میں سود(مارگیج)پر مکان لینے کی وبا ایسی پھیلی کہ اب برسہا برس سے پوری قیادت اور شوری کی اکثریت اصحاب سود کے پاس ہی ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق 80 سے 90 فی صد لوگوں کے پاس روایتی مارگیج(سود)پررہائشی مکان ہے۔بعض لوگ شاید اس نمبر پر یقین نہ کریں، لیکن جماعت کی بھاری اکثریت سود میں مبتلا ہے ، اس پر توکسی کو کوئی شک نہیں ہے۔ قرآن و سنت اور ان کے اپنے چارٹر بائی لاز میں درج قانون کے مطابق سود جیسے گناہ کبیرہ میں ملوث جماعت کا رکن نہیں ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ دھڑلے سے اس گناہ کے سمندر میں کودے۔ چیپٹر سے لے کرمرکزی امرا تک نے اسے نظر انداز کیا۔ نئی رکنیت کے لئیبھی سود قابل اعتراض بات نہ رہی۔ سود پر مکان لینے میں جو چندسبقت لے جانے والے تھے ، آج انھیں کے ہاتھ میں امارت بھی ہے۔سود دینا، سود لینا، اس کا انتظام کرنا، اس کی ملازمت کرنا، اس کا اشتہار کرنا، اس کو سہولت بہم پہنچانا سب کے سب سودی گناہوں میں شامل ہے۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ سود میں ملوث کسی فرد کی امارت کے لئے لابی کرنا اور ان کے انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا برابر کا گناہ نہیں ہے؟ بات صرف یہ کہ دینے سے کہ میرا مکان سود پر نہیں ہے کام چل جائے گا؟۔ آپ متواتر اہل سود کو اپنا امیر اور رکن شوری منتخب کر رہے ہیں۔ کیا آپ واقعی اتنے بھولے اور سادہ ہیں؟ یا اپنے کو دو چہروں والا انسان بنایا ہوا ہے؟ کیا آپ آخرت میں جوابدہی سے بچ جائیں گے؟ہمارے علاقہ (چیپٹر) کی مثال دی جاتی ہے کہ یہاں ماضی میں جو بھی درس قرآن کے لئے مدرِس کے مسند پر بیٹھا اس کی اکثریت سود میں مبتلا ہوئی اور گھر لے کر ہی اس علاقہ سے رخصت ہوئی۔ سود میں سبقت والے ہمارے چار سال سے (دو بار منتخب) جو مرکزی امیر ہیں وہ بھی ہمارے ہی چیپٹر کے پروڈکٹ ہیں، جوکہ بہترین درس قرآن دیتے ہیں۔ گفتگو میں اور بات کو پیار سے رکھنے میں ان کو ملکہ حاصل ہے۔ جماعت کے علما اور فقہا عام رکن سے بھی زیادہ بگڑ چکیہیں۔ ایک فقیہ جب امیر بنے تو جماعت کی ملکیت تمام مساجد کو گروی رکھ کر ایک نئی مسجد کے لیے کریڈٹ یونین سے قرض لیا۔ کئی سال کے بعد جب ماہانہ قسط ادا کرنا مشکل ہوا اور دیگر پراپرٹی(مساجد)خطرہ میں پڑی تو ریلیف کے لیے حاصل چندہ سے قرض لے کر قرض کار کریڈٹ یونین کو پوری رقم ادا کی گئی۔تاریخ اسلامی میں مسجد (اللہ کے گھر)کی تعمیر کبھی کسی مسلم کے بھی قرض سے نہیں بنی، اور آج یہاں یہودیوں کے کریڈٹ یونین سے قرض لے کر دھڑلے سے مساجد بنائی جا رہی ہیں۔ سود کا نام بدل کر استعمال کرنے کی فیس رکھ دیا گیا۔ایک اور حیلہ یہ نکالا گیا کہ مسجد اور مسلم کمیونٹی سنٹر میں فرق ہے ، ہم مسجد نہیں کمیونٹی سنٹر بنا رہے ہیں (اس لئے قرض اور سود سب جائز ہو گیا)حالانکہ مسجد نبوی ۖ بھی ایک کمیونٹی اور فوجی سنٹر بھی تھا۔اور مسجد نبویۖ زمین خرید کربنائی گئی تھی۔جب ہمارے محترم فقیہ امیر بنے تو نائب امیر، سیکریٹری جنرل، دواسسٹنٹ سکریٹریزکواہل سود سے بنایا۔اور 50فی صد ارکان شوری جو نامزد کیے گئے ان کی اکثریت بھی اصحاب سود کی تھی۔سود میں گردن گردن ڈوبنے کے بعد جماعت کے اند ایک زبردست نزاع پیدا ہوا۔ دو گروہ بلکہ کئی کئی گروہ بن گئے۔ سر پھٹول کی نوبت آئی ،امارت پر فائز فقیہِ جماعت نے کینیڈین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، وکلا کوجماعت کے بیت المال میں سے فیس ادا کی گئی۔ غیرمسلم کینیڈین جج نے کہا کہ تم لوگ اپنے معاملات اپنی کمیونٹی کے اندر کیوں نہیں نمٹا تے ؟ اسیوہیں نمٹاو۔ اپنی گندی لانڈری عدالت میں لے کر مت آو۔ مختلف الفاظ میں عدالت بار بار یہی کہتی رہی لیکن اس جماعت کی پوری نظم اسی عدالت کے ذریعہ سے ہی انصاف کے لیے بضد رہی ۔ معاملہ گلوبل بنا۔ پاکستان اورامریکا سے ہم خیال جماعتوں کے چند صاحبان آئے ،صلح کی خاطر۔ لیکن دونوں متحارب گروہ میں سے کسی نے ان لوگوں سے یہ نہیں کہا کہ ہمارا یہ حال سود کے باعث ہوا ہے۔کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم تو اللہ اور اس کے رسولۖ سے لڑ رہے ہیں، آپ ہمارا کیا بنا سکتے ہیں، کیا بگاڑ سکتے ہیں؟جماعت کے امرا اور نظم، جماعت کو کینیڈین کارپوریٹ کے طرز پر چلانا چاہتے ہیں۔ اس میں ہر وہ چیز اور بات جائز ہے جو کارپوریٹ کلچر کا تقا ضا ہے۔جماعت کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بین الاقوامی ریلیف کے لیے حاصل شدہ چندہ ہے۔ دنیا میں جیسے جیسے قتل وغارتگری، آسمانی اورزمینی حادثات رونما ہو رہے ہیں، ریلیف کے لیے چندہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسی کو وہ اپنی کامیابی، واحد کامیابی کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ اور دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ کارپوریٹ کلچر کا تقاضا یہ ہے کہ جو شعبہ آمدنی والا ہو اسے رکھا جائے اور جو شعبہ نقصان والا ہو اسے بند کر دیا جائے خواہ اس سے کتنا بھی علمی اورروحانی فائدہ ہو۔ اسی لئے شعبہ ریلیف کورکھا گیا اوراسلامی بک سروس کو بند کر دیا گیا۔سود کا مرض لا علاج مرض ہے۔اس لاعلاج مرض میں جماعت اپنی آخری سانس لے رہی ہے۔ہاں ریلیف کے میلینز آف ڈالرز کی چکا چوندھی چند روز ضرور قائم رہے گی جس کیاستعمال کے لیے بڑی تنخواہوں والے نئے ملازمین آئے ہیں۔ جماعت میں بالضرورت اور بلا ضرورت نئینئے عہدے نکالے جا رہے ہیں۔ لیکن تحریکیں کارکنان سے چلتی ہیں نہ کہ ملازمین سے۔فنانس اور آئی ٹی کے جینیس اسے بچا نہیں سکتے۔ اہل سود، جماعت کی کشتی کو ڈبو دیں گے۔ہوش مند اوراہل تقوی کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ جماعت میں ایک قرارداد لائیں کہ دستور تنظیم کے مطابق وہ تمام لو گ مستعفی ہو جائیں، جو سود (مکان کے روایتی مارگیج) میں ملوث ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دس فی صد یا صرف دس ارکان باقی بچ جائیں، لیکن یہی دستور کا اور شریعت کا تقاضا ہے۔ اگر یہ قرارداد منظور نہیں ہوتی ہے اور اہل سود مل کر اسے ناکام بنا دیتے ہیں۔ تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ اب اس جماعت سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here