پت جھڑ کے دن یا خزاں کا موسم بظاہر کتنا ہی خوبصورت لگے، ہمیشہ اپنے ساتھ ایک عجیب طرح کی اُداسی لے کر آتا ہے۔ ہمارے ہاں امریکہ میں اِن دنوں کو فال (Fall) یا آٹم (Autumn) کہا جاتا ہے۔ چاہے جس نام سے بھی اسے پکارا جائے، حقیقت یہی ہے کہ سرد علاقوں میں یہ ظالم موسم، ہرے بھرے درختوں کو چند ہفتوں کے اندر ہی ایسے ٹنڈ منڈ کر دیتا ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ ان میں دوبارہ زندگی اور ہریالی واپس آئے گی۔ پروین شاکر نے کس سادگی سے ایک بڑی حقیقت بیان فرمائی ہے۔
وگرنہ فصل گل کی قدر کیا تھی
بڑی حکمت ہے وابستہ خزاں سے
آجکل شمالی امریکہ کے سرد علاقوں میں سر سبز درختوں کے پتے، بڑی تیزی سے جھڑ رہے ہیں۔ یہاں کے اکثر درختوں کے پتے جھڑنے سے پہلے اپنے سبز پتوں کو زرد، شوخ زرد، سرخ اور کسی حد تک گلابی رنگوں میں تبدیل کرتے ہیں اور بالآخر تیز ہواں کی تاب نہ لاکر، اللہ کی رضا پہ تسلیم خم کرتے ہوئے، زمین پر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ خزاں کے یہ شوخ رنگ، دیکھنے میں بہت بھلے محسوس ہوتے ہیں اور ہزاروں کے تعداد میں تماشائی جنگلوں اور باغیچوں کا رخ کرتے ہیں تاکہ قدرت کے ان مناظر سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ہر سال میں بھی ان تماشائیوں میں شامل رہتا ہوں اور حضرتِ منیر نیازی کے اس شعر سے بھی محظوظ ہوتا ہوں۔
منیر دیکھ شجر، چاند اور دیواریں
ہوا خزاں کی ہے سر پر، شبِ بہار میں ہوں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہر سال یہ پتے گرتے کیوں ہیں؟ اس کا جواب میں نے مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) سے پوچھا تو جواب کچھ یوں ملا۔ سردی ایک یقینی حقیقت ہے جس کا ہر سال معتدل علاقوں کی تمام نباتات کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دائمی پودے، بشمول درخت، منجمد درجہ حرارت اور سردیوں کے دیگر سخت اثرات سے بچنے کے لیے کسی نہ کسی قسم کے تحفظ کی ضرورت رکھتے ہیں۔ تنوں، شاخوں اور کلیوں کو شدید سردی سے بچنے کے لیے تیار کیا گیا ہے تاکہ وہ بہار کے آغاز کے ساتھ دوبارہ بیدار ہو سکیں، جب ایک اور بڑھتے ہوئے موسم کا آغاز ہوتا ہے۔ تاہم، نرم پتوں کے بافتے سردیوں میں جم جائیں گے، اس لیے پودوں کو یا تو اپنے پتوں کو سخت کرنا اور ان کی حفاظت کرنا ہوگی یا انہیں گرا دینا ہوگا۔ سادہ لفظوں میں جواب یہ ہے کہ سخت سردی کے دوران پتے منجمد ہو کر اتنا بوجھ بن جاتے ہیں کہ درخت کو خود اپنے گرنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی خطرے کے پیشِ نظر، سردی شروع ہونے سے پہلے ہی کمزور درختوں پر پت جھڑ واقع ہوجاتی ہے۔ استاد قمر جلالوی (مرحوم) نے یہ ساری حقیقت صرف ایک شعر میں بیان کردی ہے۔
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
دوسرا بڑا سوال یہ ہے کہ کئی سال ایسے بھی آتے ہیں جب زیادہ شوخ و شنگ پتے نظر نہیں آتے۔ مصنوعی ذہانت صاحبہ کا جواب یہ آیا کہ ایک گرم اور نم آلود بہار، سازگار موسم گرما اور ٹھنڈی راتوں کے ساتھ گرم دھوپ والے خزاں کے دن، سب مل کر، بہت ہی زیادہ شاندار اور شوخ و رنگین رنگ پیدا کر سکتے ہیں۔ یعنی جن سالوں میں موسموں کی تبدیلی کے یہ سارے لوازمات مہیا نہیں ہوتے، ان سالوں میں، درختوں کے پتے زرد ہوتے ہی جلدی سے جھڑ جاتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے اسی لئے تو کہا ہے کہ
آ غبار راہ میں ڈھونڈیں شمیم ناز
آ خبر بہار کی پوچھیں خزاں سے ہم
پت جھڑ کا موسم، ایک لحاظ سے خاصا سبق آموز بھی ہے۔ خزاں کے دنوں کی مایوسیاں اور ہریالی کا ختم ہوجانا، ویسے تو تکلیف دہ لگتا ہے لیکن چونکہ یہ یقین ہوتا ہے کہ اس ویرانی کے بعد بہار بھی آنے والی ہے، اس لئے ہم سب یہ مشکل وقت کسی نہ کسی طرح گزار ہی لیتے ہیں۔ جناب مبارک صدیقی صاحب نے تو اپنی ایک مشہور غزل میں بہت آگے کی بات کر ڈالی ہے۔
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ دیا جلانا جلا کے رکھنا کمال یہ ہے
پچھلے کئی سالوں سے عالمِ اسلام کے بالعموم اور پاکستان کے بالخصوص، معاشی اور سیاسی حالات، کچھ ایسے خزاں دیدہ ہوئے ہیں کہ بظاہر تو بہار کا دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا۔ لیکن بدلتے موسموں کی حقیقت کوسمجھنے والے تو یہی بتاتے ہیں کہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خزاں کہیں بھی مستقل ڈیرے نہیں جما سکتی۔ مایوسی کے اس دور میں، امید کی کرنوں کے بارے میں سوچنا، ہے تو بہت مشکل کام لیکن پھر بھی ہمارے لئے پرامید رہنا انتہائی ضروری ہے۔ علامہ اقبال نے بالکل درست فرمایا تھا۔
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
٭٭٭