قارئین اور عزیزانِ وطن! پاکستان زندہ باد آج جب کالم لکھنا شروع کیا تو 14 اگست یوم پاکستان کے سورج طلوع ہونے میں دو دن باقی ہیں ملک میں سیمی مارشل لا اور اس کے سایہ عافیت میں مملکت کے صدر آصف علی زرداری سے لے کر شو باز شہباز شریف کی جعلی حکومت براجمان ہے ،دل اُداس ہے کہ 14 اگست کے اس تاریخی دن پر کیا لکھا جائے خاص طور پر حال ہی میں حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پڑھنے کے بعد اللہ اللہ جرنل یحییٰ اور اس کے مٹھی بھر ہم جولیوں اور ان کے پروردہ ذوالفقار علی بھٹو اور غیر وردی سرکاری گماشتوں نے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقا کی انگریز ، ہندو اور یونینسٹ سے جیتی ہوئی جنگ 1971 میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا کر سب کچھ خاک میں ملا دیا۔ نہ وہ پاکستان اپنی اصل شکل میں ہے اور 78 سال کے بعد بھی پاکستان کی شہ رگ کشمیر بھارتی پنجہ استبداد میں قید ہے اور قائد اعظم کے بقایا 25 کروڑ پاکستان زندہ باد کہنے والے وطن پر قابض یونینسٹوں اور ان کے پالے پوسے خاکی اور نیم خاکی بھڑیوں کے خونخوار پنجوں میں سانس لینے پر مجبور ہیں ،اب کوئی ذی شعور ہی بتائے کے کس دل سے ہم اپنے قائد اور ان کے رفقا کو کیا خراج تحسین پیش کر سکتے ہیں جب کے دل بجے ہوئے ہیں۔ قارئین اور عزیزان وطن!کل کسی دکھی دل نے ایک کلپ بھیجا ایک گدھے پر نواز شریف سوار ہے اور قائد اعظم اس کو کہ رہے ہیں کہ مجھ کو بڑا افسوس ہے کہ میں نے پاکستان تم جیسے بھڑووں کے لئے بنایا ہے اور نواز شریف ہنس رہا ہے اس کلپ کو دیکھنے کے بعد میرا بھی یہی خیال ہے کہ جو میرے قائد نے کہا بلکل سہی کہا ملک کے طول و عرض پر نظر دوڑائیں تو مملکت کے صدر دفتر سے لے کر سیکشن آفسر تک کا ہر دفتر قائد کے دیے خطاب کے مطابق زیر اثر ہے۔اطہر کاظمی کے وی لاگ سے پتا چلا کہ مریم نواز کی صوبہ پنجاب کی حکومت کا یہ حال ہے کی ہر سرکاری اشتہار پر صرف تین تصویریں آویزاں ہیں، نواز شریف، مریم نواز اور شہباز شریف قائد اعظم اور علامہ اقبال کو اشتہاروں سے کھیل دیا ہے، بونوں کی فطرت میں ہے کہ بڑے دفتر میں بیٹھ کر اپنا قد اونچا کرنا۔ میں اسی طرح نواز شریف کی بونگی کا عینی شاہد ہوں ،یہ واقعہ 24 مارچ 1990 کا ہے 23 مارچ گولڈن جوبلی کا دوسرا دن تھا، خادم پاکستان مسلم لیگ یو ایس اے کی صدر کی حیثیت سے اقبال احمد خان سیکرٹری جرنل پاکستان مسلم لیگ اور غلام حیدر وائیں صاحب تینوں وزیر اعلیٰ کے دفتر میں چائے نوش فرما رہے تھے کہ اچانک نواز شریف ملحقہ کمرہ سے برآمد ہوا اور اقبال احمد خان صاحب کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ” خان صاحب قائد دا جلسہ وڈا سی یا میرا” کہ قائد کا جلسہ بڑا تھا یا میرا خان صاحب نے جواب دیا کہ قائد کے پاس ڈی سی اور پولیس نہیں تھی ،چھوٹا سا منہ بنا کر واپس لوٹ گیا۔ آپ اس کی ذہنی حالت کا اندازہ لگائیں جب پست لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ دوڑ ہو گی خواہ وہ باپ ہو یا بیٹی، شکر کریں کہ بیٹی نے قائد کی اور علامہ کی تصویر ہٹائی ہے کہیں یہ دعویٰ نہیں کر دیا کہ پاکستان شریف خاندان کی کھٹالیوں میں بنا ہے۔پھر بات وہیں پر آجاتی ہے کہ کیا یوم آزادی اور کیا جشن ہم قائید سے شرمندہ ہیں کہ فوجی پریڈ میں تالیاں بجا کر خوش ہو جائیں گے۔ جرنلوں کے اور ان کے پالے پوسوں کے لئے نعر مستانہ لگا کر قائد کے مزار پر پھول چڑھا کر جعلی حکمرانوں کے بلندو بانگ دعوے سنیں گے اور بجلی کے بلوں کے بوجھ میں دفن ہو جائیں گے اور 78 ویں یوم آزادی منائیں گے، پتا نہیں ،یہ یوم آزادی ہے یا یوم فکر پاکستان زندہ باد۔
قارئین اور عزیزان وطن ! بقول میرے مرشد علامہ اقبال ،نہ ہو نو اُمید نا اُمیدی زوال علم ہے، انشاللہ قائد اور اس کے رفقا کے جو دس لاکھ بچوں،عورتوں اور مردوں نے جو ہندوں سکھوں کے نیزوں پر لٹک کر قربانی دی ہے اپنا رنگ دکھائے گی اور پاکستان اور کشمیر پر عوام کا راج ہو گا، فرعون کے نام و نشاں نہیں رہے اور شہنشاہ ایران ، صدام حسین، مارکوس جیسے ظالم حکمرانوں کے وجود کی کسی کو خبر نہیں تو فارم 47 اور ان کے پالنے والے کس باغ کی مولی ہیں، بقول جگر مرادآباد ی !
طولِ غمِ حیات سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہیں
اچھے نہیں رہے تو یہ برُے بھی نہیں رہیں گے ،پاکستان زندہ باد !
٭٭٭















