یزید کی تباہ کاریاں!!!

0
96
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج موقع کی مناسبت سے ماہ محرم الحرام میں یزید کے کرتوت کا زکر بھی ہوجائے جس سے بہت سے ابہام دور ہونے میں مدد ملے گی ان شا اللہ تعالیٰ ۔٭کتب ِ تاریخ میں درج بعض تاریخی روایات کی بنا پر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یزید بجائے خود برا نہیں تھا ، لیکن ابن زیاد کی وجہ سے اسے بہت بدنامی ملی۔٭لیکن اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو یزید پلیدبڑا مکار اور دغاباز تھا ۔ اس نے محض اپنی حکومت کے استحکام کے لئے یہ چال چلی کہ واقعہ کربلا اس کی رضامندی کے بغیر ہوا ہے ۔ اس اس کا دعویٰ حقیقت الامر میں درست تھا تو کیا کوئی یزیدی (یزید کا کوئی بھی ہوا خواہ پیرو کار خیر خواہ یا اس کو حق پر ماننے والا یا اس کے بارے میں معمولی سا بھی حسن ظن رکھنے والا وغیرہ ) یہ ثابت کرسکتاہے کہ یزید نے اس واقعہ کربلا کے اہم کردار ابن زیاد بدنہاد کو گورنری سے معزول کرنا تو درکنار ، ڈانٹا تک بھی ہو؟ یا پھر شمر لعین ۔ حصین بن نمیر ۔ عمر و بن سعد ۔ سنان بن انس یا دوسرے ظالموں کو کوئی بھی سزا دی ہو؟ نہیں اور ہرگز ہرگز کبھی کوئی یہ ثابت نہیں کرسکتا کیونکہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ بلکہ معتبر کتب تواریخ سے معلوم ہوتاہے کہ یزید پلید نے ان ظالموں کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے اور انعامات ِ دنیا کی ان پر بارش کردی ۔ جبکہ اہل بیت اطہار علیہم الرضوان کے ساتھ نرمی اور عزت و احترام کا ڈرامہ لوگوں کی لعنت و پھٹکار سے بچنے کیلئے رچایا گیاتھا۔ اسے خوف تھاکہ اگر ایسے نہ کیا تو میرا تختِ حکومت مجھ سے چھن جائے گا۔ بالکل آج کل کی سیاست کی طرح کہ !
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
٭یزید پلید علیہ مایستحقہ کی محبت کواپنے دل میں جگہ دینے والوں کیلئے علامہ ثنا اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ کی نقل فرمودہ یہ عبارت یقینا تازیانہ عبرت ثابت ہوگی۔ ابن مردویہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عمر (رضی اللہ تعالی عنہم ) سے پوچھا کہ امیر المومنین فرمائیے ۔(آی مبارکہ
الذین بدلوا نعمت اللہ کفرا (سور ابراہیم
سے کون لوگ مراد ہیں ؟ توامیر المومنین و خلیف المسلمین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : قریش کے وہ دو قبیلے جو سب سے زیادہ بدکار تھے ۔ بنی مغیرہ اور بنو امیہ ۔ بنو مغیرہ کے شر سے تو بدر کی لڑائی میں تمھاری حفاظت ہوچکی ہے (یعنی ان کا زور ٹوٹ گیا ) لیکن بنی امیہ کو ایک وقت تک مزہ اڑانے کا موقع دیا گیا۔ علامہ بغوی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا قول نقل کیا ہے ۔ نیز علامہ ابن جریر ۔ابن المنذر۔ ابن ابی حاتم ۔ طبرانی ۔ حاکم اور ابن مردویہ نے اسی طرح کا قول حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے نقل کیا ۔ علامہ حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا۔ اقول:۔ بنی امیہ کو حالت ِ کفر میں مزے اڑانے کا موقع دیا گیا ۔ یہاں تک کہ ابو سفیان معاویہ اور عمر بن العاص وغیرہم مسلمان ہوگئے ۔ پھر یزید پلید اور اس کے ساتھیوں نے اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناشکری کی اور اہلبیت کرام کی دشمنی کا جھنڈا بلند کردیا ۔ آخر کار حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو ظلما شہید کردیا اور یزید نے رسول اللہ ۖ کے دین ہی کا انکار کردیا ۔ جب وہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کرچکا تو اس نے چند اشعار پڑھے ۔ جن کا مضمون تھا کہ آج اگر میرے اسلاف ہوتے تو دیکھتے کہ میں نے آل محمد اور بنو ہاشم سے ان کا کیسا بدلہ لیا ہے ۔ یزید نے جو اشعار کہے تھے ان میں سے آخری شعر یہ تھا۔
ولست جندب ان لم انتقم
من بی احمد ما کان فعل
یعنی احمد (ۖ ) نے جو کچھ (ہمارے بزرگوں کے ساتھ میدانِ بدر میں ) کیا ۔ اگر میں نے ان (رسول اللہ ۖ ) کی آل سے بدلہ نہ لیا تو میں بنی جندب میں سے نہیں ہوں۔
یزید پلید نے شراب کو بھی حلال قرار دے دیا تھا ۔ دیگر شرعی امور میں بھی تجاوزات کرنے کا مرتکب ہورہا تھا ۔ اس خمر (شراب ) کی تعریف میں بھی چند اشعار کہے ان میں سے ایک شعریہ تھا۔
فان حرمت یوما علی دین احمد
فخذھا علی دین مسیح بن مریم
یعنی اگر شراب آج دین احمد میں حرام ہو بھی گئی تو کیا ہوا؟ تم اسے مسیح ابن مریم کے دین پر عمل کرتے ہوئے (حلال سمجھ کر)پی لو۔ (تفسیر مظہری جلد ص)
٭یزید کی بدبختی پر مہر تصدیق فرماتے ہوئے حضرت شیخ محقق الشاہ عبدالحق محدث دہلوی رحم اللہ تعالی علیہ اپنی معروف تصنیف جذب القلوب الی دیار المحبوب (تاریخ مدینہ میں علامہ واقدی ۔ قرطبی۔ اورابن جوزی وغیرہ کے حوالہ سے واقعہ حرہ بنی واقم کو بڑی تفصیل سے نقل فرماتے ہیں ۔ نیز یہ واقعہ تمام معتبر کتبِ تواریخ مثلا ابن اثیر ۔ عقدالفرید۔ طبری۔ ابن خلدون وغیرہ میں بھی موجود ہے ۔ کہ سن ھ میں یزید پلید کے حکم سے مدینہ طیبہ کی زبردست توہین کی گئی ۔اس حوالے سے تفاصیل کتب مذکورہ میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ کیا کیا ہوا اور وہ سب پیدائشی جنتی حضرت امیرالمومنین یزید کے ہی حکم سے ہوا تھا۔ ہمارا تو وہ سب نقل کرتے ہوئے بھی دل دہلتاہے ۔
٭جذب القلوب میں ہے کہ شہادت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد تمام برائیوں سے عظیم تر برائی وہ ہے جو یزید پلید کے زمانہ میں مدینہ طیبہ کے اندر واقع ہوئی یزیدلعین نے بدبخت ازلی مسلم بن عقبہ مری کو ایک بڑے لشکرکے ساتھ مدینہ طیبہ پر حملہ کرنے کو بھیجا تاکہ لوگوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ مدینہ مطہرہ کے حرہ میںقتل کرے ۔ اور جتنی سختی کرسکتا ہو کرے ۔ چنانچہ اس بے دین مسلم بن عقبہ نے بحکم یزید پلید تین دن تک حرم نبوی ۖکی بے حرمتی کر کے دادِ بے دینی دی ۔ اسی وجہ سے اس کو واقعہ حرہ کہتے ہیں ۔
اس بدبخت نے تین ہزار سے سات ہزار آدمیوں کو علاوہ مہاجرین و انصار و تابعین و علما کے شہید کردیا ۔عورتیں اور بچے بھی اس کے علاوہ ہیں ۔علاوہ سات سو حفاظ قرآن مجید اور قوم قریش کے ستانوے افراد کو ظلم کی تلوار سے ذبح کردیا ۔ فسق و فساد اور زنا کو جائز قرار دے دیا ۔ کہتے ہیںکہ اس واقعہ قبیحہ کے بعد ایک ہزار عورتوں نے اولادِ زنا جنی تھی۔ (معاذ اللہ ) ۔پیغمبر علیہ الصلوہ والسلام کی مسجد میں ان کے گھوڑے بندھے ہوئے تھے ۔ غضب کی بات یہ ہے کہ روضہ انور اور ممبر شریف کی درمیانی جگہ کہ جس کی بابت صحیح حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔ وہاں ان کے گھوڑے پیشاب اور لید کرتے تھے ۔ بے دین لعین مسلم بن عقبہ لوگوں کو یزید پلید کی بیعت پر اس طرح آمادہ کرنا چاہتا تھا کہ وہ ہر حال میں یزید کا ہر حکم مانیں ۔ خواہ وہ اللہ تعالی کی نافرمانی ہی کیوں نہ ہو ۔ جب مسلم بن عقبہ کے نزدیک حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ تعالی عنہ قرآن و سنت کے موافق بیعت کا ذکر کیا تو فورا ان کی گردن اڑا دی گئی ۔ مدینہ طیبہ کی خوب کوب بے حرمتی کرنے کے بعد یزید پلید کے ہی حکم سے اس ظالم لشکر نے مکہ مکرمہ کا رخ کیا ۔ مگر راستہ میں مسلم بن عقبہ نامراد مرگیا۔ یزید پلید کے حکم سے حصین بن نمیر (قاتل اہلِ بیت ) فوج کا سپہ سالار بنادیا گیا۔ اس سیاہ بخت نے مکہ مکرمہ کا محاصرہ کرکے خانہ کعبہ پر منجنیق کے ذریعے پتھروں کی بارش کردی ۔ لیکن جب حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو شکست نہ دی جاسکی تو خانہ کعبہ پر آگ کے گولے برسائے گئے ۔ جس سے خانہ کعبہ کا پردہ جل گیا۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ کے وہ سینگ جو اس مینڈھے کے تھے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلہ میں ذبح کیا گیا تھا اور ان کو بطور یادگار حرم کعبہ میں لٹکایا گیا تھا وہ بھی جل گئے۔ اسی اثنا میں یزید پلید کی موت کی خبر آگئی اور یوں ماہ مقدس ربیع الاول ھ میں یہ بد بخت بھاگ گئے اور اہل حرم کو ان کے شر سے نجات ملی ۔
اگر کوئی یزیدی اس مضمون میں درج اشعار کی بابت یہ کہے کہ اشعار سے یزید کے عقیدہ پر کیا فرق پڑتا ہے تو ہم اس بابت اسے انہیں کے گھر کے فتاوی جات کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیں گے ۔ تاکہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کا لطف دوبالا ہوجائے ۔
مندرجہ بالا مضمون تاریخ سے آگاہی کیلیے لکھا گیا ہے مجھے ذاتی طور پر یزید سے کوئی ہمدردی نہیں ہے بلکہ عاجز اس کے ظلم سے بیزار بندہ ہے اللہ ہمارا حشر و نشر حسینین کریمین کے ساتھ فرمائے اور یزید پلید کے محبین کا اس کے ساتھ یہی دعا بھی ہے اور تمنا بھی ۔۔
امید ہے قارئین کو تاریخی آگہی مضامین پسند آئینگے اور اگر ایسا ہوا تو تاریخی مناسبت سے مقالہ جات آپ کیلئے لکھے جاتے رہیں گے جن کو پڑھ کر آپ یقینا تاریخ سے آگاہی اور سبق آموز واقعات سے بھی آگاہی رکھ پائیں گے ۔
اس کے ساتھ ہی اجازت دیں ملتے ہیں اگلے ہفتے ان شا اللہ!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here