فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
235

محترم قارئین! حضرات حسنین کریمین راضی اللہ عنھا کے درجات میں بہت زیادہ احادیث و روایات آئی ہیں۔ جن سے چند ایک ذکر کیا جاسکے گا ،سیدنا حضرت ابوسعید خددی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورۖ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ:حسن وحسین رضی اللہ عنھا جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضور سیدالعالمین ختم المرسلینۖ نے ارشاد فرمایا:بے شک حسن وحسین رضی اللہ عنھا دونوں پھول ہیں میرے دنیا میں کائنات کا ہر فرد کسی نہ کسی پھول سے محبت رکھتا ہے، کوئی گلاب سے ،کوئی چنبیلی سے محبت رکھتا ہے۔ اس لئے کہ پھول میں خوشبو کا تصور پایا جاتا ہے۔ اسی لئے گلدستہ بھی سجایا جاتا ہے اور کبھی گلے میں ہار پہنایا جاتا ہے، ان تمام پھولوں میں سے آنے والی خوشبو سے ہم اپنے دل ودماغ معطر تو کرسکتے ہیں جبکہ حضور سید العالمینۖ کا جسم اطہر، معطر، پسینہ مبارک معطر بلکہ جس راہ سے گزر ہوجاتا وہ تمام گلی کوچے معطر ہوجاتے تھے۔ اگرچہ آپۖ نے خوشبو استعمال فرمائی ہے تاکہ میری امت کے لئے سنت بن جائے۔کسی کا پسندیدہ پھول گلاب ہے اور کسی کا چنبیلی ہے اور آقاۖ کے پسندیدہ پھول حسنین کریمین ہیں۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید الانبیاء حبیب اکبرۖ خطبہ سنا رہے تھے کہ امام حسن وحسین رضی اللہ عنھا تشریف لائے دونوں نے سرخ کرتے پہنے ہوئے تھے۔ بوجہ بچپن کے چلتے اور گرتے تھے تو حضور علیہ الصلواة والسلام منبر سے اترے، ان دونوں کو اٹھایا اور اپنے آگے بٹھایا اور ارشاد فرمایا: اللہ نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارا مال، تمہاری اولاد آزمائش وامتحان ہیں۔ میں نے ان دونوں کو دیکھا کہ چلتے ہیں اور گر پڑتے ہیں۔ سو مجھ سے صبر نہ ہوسکا، یہاں تکہ کہ اپنا کلام منقطع کیا اور دونوں کو اٹھا لیا۔ حضرت یعلٰی بن رضی الہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایا: حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں جس نے حسین سے محبت کی اللہ تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نواسوں میں سے ایک نواسہ ہیں۔ اسی حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جس نے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ سے محبت رکھی اس نے رسول اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھی۔ اور محبت رسولۖ محبت خدا ہے جیسا کہ کسی محبت والے نے خواب کہا ہے:
ضرور حسین پہ مقیم ہو تو ضرور پہنچے علی تک
جو علی ملے تو ہی ملے جو نبی ملے تو خدا ملے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلواة والسلام نے حضرت امام حسین بن علی رضی اللہ عنھا کو اپنے کندھے پر اُٹھایا ہوا تھا۔ ایک آدمی نے کہا:اے لڑکے چن سواری پر تو سوار ہے یہ سواری کتنی اچھی ہے حضور علیہ الصلواة والسلام نے ارشاد فرمایا سوار بھی کتنا اچھا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ سوار ہونے والا سید شباب اہل الجنتہ ہے۔ اور جن کے کندھے پر سوار ہے وہ سید الانبیاء ۖ ہیں۔ ایک روز حضرت امام حسن وحسین رضی اللہ عنھا کشُتی لڑنے لگے۔سید العالمینۖ اس کشتی کو ملاحظہ فرما رہے تھے اور ساتھ ساتھ فرما رہے تھے۔ حسن حسین کو پکڑو، سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنھا عرض کرنے لگیں یارسول اللہ!آپ حسن سے فرماتے ہیں کہ حسین کو پکڑو۔ جبکہ حسین چھوٹا ہے تو آنحضرتۖ نے ارشاد فرمایا:جبریل علیہ السلام حسین سے فرما رہے ہیں کہ حسن کو پکڑو واہ کیا عظمت وشان ہے دونوں شہزادوں کی؟اللہ تعالیٰ ہمیں صدق دل سے ان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ایک اعرابی(دیہاتی) رسول اللہۖ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی:یارسول اللہ!میں نے ہرن کا ایک بچہ شکار کیا ہے اور آپ کی بارگاہ میں بطور ہدیہ لایا ہوں آپ نے اس کے ہدیے کو قبول فرما لیا۔اسی اثناء میں امام حسین رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور ہرن کے بچے سے پیار کرنے لگے۔سیدالعالمینۖ نے ہرن کا بچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور وہ گھر لے کر چلے گئے کچھ دیر بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ گھر تشریف لائے، بڑے بھائی کو ہرن کے بچے سے کھیلتے دیکھا تو پوچھا بھائی جان یہ بچہ آپ کو کس نے دیا ہے؟ فرمایا نانا جان نے عطا کیا ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نانا جان علیہ السلام کے پاس آئے اور عرض کی نانان جان ہرن کا بچہ مجھے بھی عطا فرمائیے دو جہاں علیہ الصلواة والسلام نے بہلایا۔مگر اصرار برابر جاری رہا اتنے میں ایک ہرنی اپنے بچے کو لئے آپ کی بارگاہ میں پہنچ گئی اور عرض کرنے لگی یا رسول اللہ! ۖ میرے دو ہی بچے تھے ایک شکاری پکڑ لایا۔دوسرے کو میں دودھ پلا رہی تھی کہ ہاقف غیبی نے آواز دی کہ جلدی سے اس بچے کو لے کر نبی کریمۖ کی بارگاہ میں حاضر ہو۔ اس لئے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ ہرنی کا بچہ مانگ رہے ہیں۔ ان کے رونے سے قبل اپنا بچہ پیش کردے۔ لہٰذا میں تیزی سے دوڑتی ہوئی آئی ہوں۔ اللہ تعالیٰ حسنین کریمین رضی اللہ عنھا کی سچی اور پکی محبت ہمیں عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here