پاکستان کا نوجوان طبقہ

0
206
شمیم سیّد
شمیم سیّد

پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد کے متعلق کچھ ایسے اعداد و شمار ہمارے سامنے آئے ہیں جو انتہائی پریشان کن ہیں۔ مثلاً29 فیصد نوجوان ناخواندہ ہیں۔ ناخواندہ ہونے کا مطلب جنہوں نے سرے سے تعلیم ہی حاصل نہیں کی، انہیں اپنا نام تک لکھنا یا پڑھنا نہیں آتا، جبکہ صرف 6 فیصد نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے 12 سال سے زائد تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور بقیہ 65 فیصد نوجوان ایسے ہیں جن کی تعلیم 12 سال یعنی انٹر یا ایف اے، ایف ایس سی کی سطح سے نیچے ہے، جس میں پرائمری اور مڈل کی سطح تک کی تعلیم بھی شامل ہے۔
روزگار و معاش کے اعتبار سے 39 فیصد نوجوان ملازم ہیں۔ ان 39 فیصد میں سے 7 فیصد خواتین، جبکہ 32 فیصد مرد ہیں۔ یعنی ملک کے 57 فیصد افراد جن میں 41 فیصد خواتین اور 16 فیصد مرد ایسے ہیں جو نہ تو نوکری کر رہے ہیں اور نا ہی نوکری کی تلاش میں ہیں، صرف 4 فیصد بے روزگار نوجوان ایسے ہیں جو ملازمت کی تلاش میں ہیں۔ ان نوجوانوں میں سے 15 فیصد کو نیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ 52 فیصد نوجوان اپنا موبائل فون رکھتے ہیں۔ 94 فیصد کو لائبریری کی سہولت میسر نہیں، اور 93 فیصد کو کھیلنے کیلئے میدان میسر نہیں۔ پاکستان میں نوجوان طبقے کی حالت زار کو سمجھنے کیلئے یہ اعداد و شمار کافی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ملک نوجوانوں کی اس قدر کثیر افرادی قوت کے باوجود ترقی کی راہوں میں ڈگمگاتا دکھائی دیتا ہے۔ ہر آئے روز کوئی نہ کوئی ہنگامہ برپا ہوتا ہے، مگر اس ملک کی عہدے دار، ذمے دار، سیاسی و سماجی شخصیات نے ان کے مسائل اور ان کی بنیادی ضروریات کو اپنی ترجیحی کتاب کی جلد آخر کے صفحہ آخر میں مٹے نقوش اور دھندلاتے الفاظ میں چھپا رکھا ہے۔
حکومتوں کی بنیادیں ڈالنے میں جس طبقے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے بدقسمتی سے حکومتوں کے قیام کے بعد انہیں پوچھا تک نہیں جاتا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں نوجوان طبقے کی حیثیت ایک آلہ کار کی سی ہے، جسے وہ وقت پڑنے پر اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اپنی کامیابی کیلئے ان سے نعرے لگوائے جاتے ہیں، اپنی رسمی تقاریر کو ان کے حقوق سے مزین کیا جاتا ہے اور پھر ان سے اس قدر غفلت برتی جاتی ہے کہ اضافی تو درکنار انہیں ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کرنے کی ہر ممکن سعی کی جاتی ہے۔ باوجود اس کے کہ صاحب حل و عقد جانتے ہیں کہ نوجوان طبقہ، بچپن کا مستقبل، بڑھاپے کا ماضی، اور اقوام عالم کا حال ہے۔ یہ معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقوام کی کامیابی میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ اگر نوجوان طبقہ محفوظ و مضبوط ہے تو قوم و ملت کی حفاظت پر آنچ تک نہیں آسکتی اور اگر اس طبقہ میں کوئی کج روی پائی جائے تو قوم و ملت کا شیرازہ درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے۔ نوجوان ایک بپھرے ہوئے گھوڑے کی مانند ہوتا ہے۔ اس کی لگام جب تک صحیح ہاتھوں میں نہ ہوگی یہ بے لگامی کے نشے میں تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اگر نوجوانوں کے بنیادی مسائل، حقوق و ضروریات کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ معاشرے اور اقوام کی تنزلی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ اگر ہم ان اعداد و شمار پر غور کریں تو نوجوانوں کو درپیش مسائل جو امڈ کر ہمارے سامنے آتے ہیں ان میں تعلیم، روزگار اور سماجی مصروفیات کی عدم دستیابی ہے۔ یہ وہ امور ہیں جن کے متعلق اعداد و شمار موجود ہیں، مگر اخلاقی و تہذیبی طور پر ایک نوجوان کتنا پانی میں ہے، بدقسمتی سے اس کے اعداد و شمار ہمیں تلاش کرنے سے بھی نہیں مل پائے۔
تعلیم نوجوانوں کا وہ بنیادی حق ہے جس سے انہیں محروم رکھنا کسی بھی معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ نوجوانوں کی ایک تعداد ایسی ہے جو علمی ذوق و شوق سے محروم ہے، مگر اس کے علاوہ کثیر تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے حصولِ تعلیم میں آڑے آنیوالے دیگر عوامل کے علاوہ دو قوی وجوہ زبان اور دام ہیں۔ انہیں علوم اپنی آشنا زبان میں میسر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے نوجوان اعلیٰ علوم و فنون میں ڈگریاں حاصل کرلینے کے باوجود بھی ملک و ملت کیلئے کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ اور کچھ نوجوان ایسے ہیں جو تعلیم کی قیمت ادا نہیں کرسکتے۔ سائنسی علوم کے علاوہ آرٹس کے مضامین کی فیسیں بھی آسمانوں کو چھوتی ہیں۔ اس لیے اس ملک کی حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں کو درپیش تعلیمی مسائل حل کرنے کیلئے وہ ماہانہ، ششماہی اور سالانہ بھاری فیسیں وصول کرنیوالے اداروں کو لگام دے، اور غیرملکی زبان کو ضرورت کی حد تک محدود رکھے، تاکہ اس ملک کے کسی بھی خطے میں مقیم اور کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان علم سے محروم نہ رہیں۔
نوجوانوں کا دوسرا بنیادی مسئلہ ان کا ذریعہ معاش ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 57 فیصد افراد بے روز گار ہیں، مگر ان میں سے صرف 4 نوجوان روزگار کی تلاش میں ہیں۔ غیر تعلیم یافتہ کے علاوہ ڈگری ہولڈر نوجوانوں کی کثرت ہے جو بے روزگار ہیں اور وہ اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ اپنے ملک سے کہیں ہجرت کر جائیں۔ موجودہ حکومت نے نوجوانوں پر خصوصی توجہ دینے پر زور دیا تھا، یہی وجہ ہے کہ بہت سے نوجوان اس سے متاثر ہوئے۔ اور وہ آج بھی اپنے معاش کے لیے حکومت وقت کے منتظر ہیں۔ انہیں ملازمتوں میں ہونیوالی خوردبرد پر بھی تشویش ہے۔ وہ ان ایک کروڑ نوکریوں کے بھی شدت سے منتظر ہیں جس کا وعدہ بڑی شد و مد سے کیا گیا تھا۔ نوجوانوں کے اس مسئلے پر بھی سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے، جس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ اداروں میں موجود بزرگوں کی ریٹائرمنٹ کی مدت پر غور کیا جائے، تاکہ اس ملک کی نوجوان نسل کو زیادہ سے زیادہ مواقع میسر ہوں۔
تیسرا مسئلہ سماجی مصروفیات کی عدم دستیابی ہے۔ شہروں میں تو پھر بھی تلاش سے کوئی ایک آدھ لائبریری، کھیل کا میدان کہیں نا کہیں نظر آ ہی جاتا ہے، مگر نواحی علاقوں میں کتب خانے اور کھیلوں کے میدان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان طبقہ اب صرف اور صرف انٹرنیٹ اور موبائل سمارٹ فون پر سماجی مصروفیات تک محدود ہو گیا ہے جس میں بنیادی کردار ایسی اپلیکیشنز کا بھی ہے جو سراسر غیر معیار ی اور بے معنی ویڈیوز اور میسجز تک محدود ہیں۔ نوجوان طبقہ سوشل میڈیا کے جال میں بری طرح پھنس چکا ہے اسے احساس ہی نہیں ہو پا رہا کہ اس کی منزل کیا ہے اور اس کا زیادہ سے زیادہ وقت کن مصروفیات میں ضائع ہو رہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here