پاکستان میں سیاست کو ملک کا اہم ستون تصور کیا جاتا ہے ، ہر خاص وعام کی نگاہیں ہمیشہ عوامی نمائندوں پر مرکوز رہتی ہیں اور اب میڈیا نے اس کو مزید آسان بنادیا ہے ، سیاستدانوں کی میڈیا چھترول عام سی بات ہے یعنی کسی بھی سیاستدان جو چاہے پہلے وزیراعظم بھی رہ چکا ہوکے بارے میں میڈیا یا سوشل میڈیا پر پورا کورٹ مارشل کر دیا جاتا ہے کہ اس کے پاس کتنی جائیداد ہے؟ ، کتنی دولت ہے؟ ، خاندان کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ لیکن ملک کے اہم اوردفاعی ستون فوج کی جانب لوگوں کی توجہ اس کی نسبت کم رہتی ہے لیکن دیکھاجائے تو دفاعی اعتبار سے ہماری افواج کا بجٹ سب سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے نظر تو اس پر بھی کڑی رکھنے کی ضرورت ہے جوکہ عام طور پر نہیں ہوتا ہے ۔
اگر سیاستدان اپنے عہدوں سے مال بناتے ہیں تو کم افواج بھی نہیں ہیں ، سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر فوج میں بھرتی ہونے سے ریٹائرمنٹ کی عمر تک فوجی بھی اپنی جائیداد میں سیاستدانوں سے بہت آگے بڑھ جاتے ہیں ، افواج پاکستان میں رہائشی کے ساتھ اب کمرشل پلاٹس بھی دیئے جاتے ہیں اور زرعی زمین دینے کا بھی آغاز ہو چکا ہے یعنی لیفٹیننٹ سے آگے عہدوں تک ترقی کرتے ہوئے آپ کی زمینی ملکیت بھی بڑھتی جاتی ہے ۔
ضابطہ کار کے تحت جب کوئی فوجی افسر15 سال سروس کر لیتا ہے تو پھر وہ ایک پلاٹ کا حقدار ہو جاتا ہے۔ اس عرصے میں زیادہ تر افسران میجر کے رینک تک پہنچ چکے ہوتے ہیں یعنی میجر کے عہدے سے ہی فوج میں مراعات ملنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اس کے بعد جب ایک افسر تقریباً25 سال تک ملازمت کر لیتا ہے تو اس کے بعد وہ مراعات کے دوسرے پیکج کا حقدار ہو جاتا ہے۔25 سال کی ملازمت کے بعد افسران کرنل یا بریگیڈیئر کے رینک پر پہنچ چکے ہوتے ہیں۔میجر جنرل بننے سے ایک اضافی پلاٹ مل جاتا ہے جبکہ لیفٹیننٹ جنرل چار پلاٹوں تک کا حقدار ہو جاتا ہے۔ یہ پلاٹ رہائشی اور کمرشل ہوتے ہیں۔ البتہ یہ مختلف شہروں میں الاٹ کیے جاتے ہیں۔
ایک فور سٹار جنرل جو سروسز چیف بھی بن سکتا ہے، اسے ریٹائرمنٹ پر تین سرکاری ملازمین بھی دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک گھر کا ملازم، دوسرا ٹیلی فون آپریٹر اور تیسرا ڈرائیور ہوتا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل اگر کور کمانڈر بھی رہا ہو تو پھر ایسی صورت میں وہ تین سال تک اس عہدے پر رہتا ہے۔ ان کے مطابق ڈی ایچ اے کے ہر نئے سیکٹر میں کور کمانڈر کو پلاٹ ملتا ہے۔ یہ پلاٹ دوسرے شہروں کے ڈی ایچ ایز کے ساتھ ایکسچینج بھی کیے جا سکتے ہیںایک جنرل ریٹائرمنٹ پر پلاٹوں اور زرعی زمین کی مد میں ایک ارب روپے سے زائد کی مراعات حاصل کر لیتا ہے۔
عسکری حکام کے مطابق پرویز مشرف کے دور میں مراعات کی پالیسی تنازعات کا شکار بنی مگر سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں اس معاملے میں زیادہ شفافیت لائی گئی۔فوج میں میجر کے عہدے سے مراعات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تاہم زرعی زمین کرنل سے لے کر لیفٹیننٹ جنرل تک افسر کو تقریباً دو مربع زرعی زمین 99سال کی لیز پر دی جاتی ہے جبکہ جنرل کو مزید اضافی زمین ملتی ہے۔یہ افسران ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی کی ہاؤسنگ کالونیوں میں گھر بھی حاصل کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب ہم سیاستدانوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں تو فوج پر کیوں نہیں رکھ سکتے ؟ جس طرح سیاستدان بڑی بڑی رقوم ہتھیاکر بیرون ممالک میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں تو اسی طرح بڑے بڑے عہدوں پر سروس فراہم کرنے والے ریٹائرڈ آرمی جنرل ، بریگیڈئیر بیرون ممالک میں بڑے بڑے اثاثے بنا کر عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور غریب عوام قرضوں ، اُدھار کی چکی میں پس رہے ہیں ، آخر ہم اس نظام کو کب متوازن کریں گے اگر ایک سیاستدان پاکستان میں علاج کرنا پسند نہیں کرتا تو بڑے بڑے فوجی جنریل بھی اس چیز کو برُا سمجھتے ہیں وہ بھی اپنا علاج بیرون ممالک سے کراتے ہیں ، تما م آرمی آفیسرز کے بچے بیرون ممالک میں بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں یا تعلیم حاصل کر چکے ہیں ۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں کی تفصیلات نے عوام کو چونکا کر رکھ دیا تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک غریب ملک کے سیاستدان اور فوجی اتنی عیش و عشرت کیسے حاصل کر سکتے ہیں ؟کیا یہ دیگر عوام کے حقوق کی تلفی نہیں ، کیا ان کی اولاد کیساتھ زیادتی نہیں کہ وہ سرکاری سکولوں کے ٹاٹ پر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں ، اگر ایک فوجی 25سال ملازمت کے بعد زرعی زمین کا مالک بن جاتا ہے تو عام شخص 25سال پرائیویٹ جاب کر کے دس مرلہ کا بھی پلاٹ کیوں نہیں لے سکتا ؟ اب وقت آگیا ہے کہ اس معاشرتی تفریق کو ختم کیا جائے ،بیرون ممالک بیٹھے فوجیوں ، سیاستدانوں سے اربوں روپے نکلوائے جائیںاور ان کو ملک واپس لایا جائے ۔