طالبان کا ساتھ دے کر پاکستان نے اچھا کیا یا برا کیا ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے لیکن پچھلے ہفتےOPGFاوورسیز پاکستانی گلوبل فائونڈیشن (ایک نئی تنظیم) کے ایڈریا ہوٹل میں منعقد ہونے والے جلسے میں شہریار آفریدی کے لئے کیا گیا تھا دوسرے معنوں میں وہ مہمان خصوصی تھے۔یہ بتاتے چلیں کہ وہ نیشنل اسمبلی کے ممبر ہیں اور کشمیر کمیٹی کے سرگرم رکن ہیں کبھی وہ وزیر تھے۔راتوں کو بھیس بدل کر حضرت عمر کی طرح گشت کرتے تھے۔صبح اٹھے تو انہیں وزارت سے فارغ کردیا تھا شاید ان سے بھی بڑا اثرورسوخ والا تھا جس پر ہاتھ ڈالا تھا۔یہ یقین ہے کہ عمران خان نے انہیں فارغ نہیں کیا ہوگا کوئی اوپر والا ہی ہوگا وہ یہاں بھرے جلسے میں تقریر کر رہے تھے۔اور تقریر میں یہ بھی کہہ گئے کہ کشمیر کے معاملے میں امریکہ خاموش ہے۔وہیں پر امریکہ کے نمائندے نیویارک ڈسٹرکٹ3سے نمائندگی کرتے ہیں اور خارجی معاملات کمیٹی کے ممبر بھی تھے۔جو بغور شہریار آفریدی کی تقریر سن رہے تھے۔اس سے پہلے وہ تقریر کر چکے تھے لیکن شہریار کی کچھ باتوں سے انہیں اتفاق نہیں تھا اور شاید ہمیں بھی نہیں کہ حقائق کچھ اور ہیں اور اندر کی بات بھی کچھ اور کہ کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی سے مت لو یہ بھی لال بتی ہے جسکے پیچھے پاکستانی بھاگتے ہیں۔ہمیں ان نعروں سے بھی اتفاق نہیں، ”کشمیر بنے گا پاکستان”پاکستان کے سیاست دانوں نے عوام سے یا کشمیریوں سے غداری کی اور دو مواقع کھو دیئے جب کشمیر پاکستان تو نہیں بنتا لیکن آزاد ہوچکا ہوتا۔یہاں بھی امریکہ میں کشمیر کے لئے جگہ جگہ کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں لیکن بے اثر ہیں شہریار صاحب نے بہت اچھی تقریر کی تھی۔ویڈیو کو سنا تقریر کے فوراً بعد ان کی ٹام سوازی سے نوک جھونک بھی سنی اور یہ بھی جو سوازی نے کہا کہ شہریار آفریدی نے بہت متنازعہ باتیں کی ہیں وہ کشمیر کی تو بات کرتے ہیں لیکن ڈیڑھ ملین مسلمانوں کو چین نے کیمپوں میں یرغمال بنایا ہوا ہے۔اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔
ٹام سوازی کی اس بات سے ہم اتفاق کرینگے۔لیکن شہریار آفریدی حکومت پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے جن کے مینومیں چین کے خلاف بولنے کی منا دی ہے۔ٹام سوازی نے یہ بھی کہا کہ عمران خان خودمختار نہیں ہے ان پر آرمی کا دبائو ہے جو حکومت کو کنٹرول کرتی ہے۔یہ کہہ کر انہوں نے ثابت کیا کہ وہ زیرک سیاستدان ہیں دوسروں کی طرح جو حکومت کی پالیسی کا خیال رکھتے ہیں۔بیرونی معاملات میں ان کا بڑا مشاہدہ ہے جو اس محفل میں ظاہر کیا اور انہیں اختیار ہے کہ وہ امریکہ پر الزام تراشی کا دفاع کریں۔کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں جو رہتے، کھاتے ،فائدہ تو یہاں اٹھاتے ہیں لیکن پہلے پاکستانی ظاہر کرتے ہیں اور امریکی کہلاتے ہوئے شرماتے ہیں ہم نے آج کسی پاکستان کوGOD BLESS AMERICAکہتے نہیں سنا یہ ہی کہہ دیتے”اللہ تیرا شکر ہے”اس بارے میں ہم بہت کچھ لکھ چکے ہیں لیکن ہم حقیقت سے آنکھیں چڑاتے ہیں۔دس بارہ آدمیوں عورتوں کو جمع کرکے تنظیمیں بناتے ہیں ان پروگراموں میں جاکر دیکھیں تو معلوم ہوگا بروکلین میں لونگ آئیلینڈ کے اور لونگ آئیلنڈ میں بروکلین کے وہ ہی چہرے نظر آئینگے۔جو کھانا سونگھتے پہنچ جاتے ہیں کورے کے کورے ہیں۔ان کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ کتنے سینیٹرز ہیں اور کتنے کانگریس مین انکی دوڑ اپنے یار دوستوں کی محفلیں اور ان میں جاکر مہمانوں(ایرک آدم، لارا کیرن وغیرہ اور کوئی نہ ملے تو فرح موزے والا جو کافی ذہین خاتون ہے)
پچھلے دو ہفتوں میں یہ دوسرا موقعہ تھا کہ ایرک آدم اور اسکے بعد ٹام سوازی نے کڑوی باتیں لیکن حقیقت سے قریب باتیں کیں،ایرک آدم سے ہمیں اختلاف ہے کہ اس نے سارے مسلمانوں کو بھرے ہال میں کھری کھری سنا دیں اور بڑے صبر سے وہاں موجود لوگ بھالو بندر بیٹھے سنتے رہے ایسے لوگوں سے ہم توقع کرسکتے ہیں کہ امریکی سیاست دانوں میں وہ اپنا معیار بنائینگے؟جن کی سوچ کچھ ایسی سطحی ہو کہ مزاج میں خوشامد پرستی بدرجہ اتم بھری ہو۔اور وہاٹس پر یہ پوسٹ دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔تصویر کے نیچے لکھا تھا”اوورسیز میں پاکستان کا پہلا مقبول ترین گورنر اللہ سلامت رکھے۔پاکستان ترقی کرسکتا ہے کیا اسی طرح بلاول زرداری کی تصویر کے اردگرد پھول چڑھا کر لکھا تھا انگریزی میں جوان تعلیم یافتہ اور ذہین، ذہین پر اعتراض ہے اس کے ساتھ عمران خان کے لئے بھی لکھا تھا”ایک نظریاتی لیڈر کی موجودگی میں کوئی چیز ناممکن نہیں”۔
ہاں اگر بقول ٹام سوازی، ملٹری کا دبائو نہ ہو عمران پر مگر یہ سلسلہ جاری رہے گا۔یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کسی کو آزادی نہ دیں اور عوام توقع رکھیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔
سب ٹھیک کیسے ہوگا باجوہ صاحب کو معلوم ہے کہ دہشت گردی کہاں سے جنم لیتی ہے اور یہ نہیں معلوم کہ خاتمہ کیسے ہوگا۔وہ تاریخ پڑھ لیں۔انہیں معلوم ہوگا کہ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کو کیسے ختم کیا گیا تھا۔ہمیں پاکستان سے لگائو ہے، محبت ہے، نسیت ہے جہاں ہمارے کروڑوں بھائی بہنیں بستی ہیں اور اسے بکھرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے یہ ہی کہینگے نوجوان پاکستانیوں سے کہ جذبات سے نہیں عقل سے سوچو حالیہ نیوزی لینڈ کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ آنے سے پہلے کرنا تھا یہاں آکر کیا وہ غلط اور بھونڈا تھا وہ یہ بات2002میں دیکھ چکے تھے۔جب کراچی میں ہوٹل کے باہر بم دھماکہ ہوا تھا۔اور2009میں سری لنکا کی ٹیم پر نیشنل اسٹیڈیم لاہور کے باہر انکی بس پر حملہ ہوا تھا اور ایک جانبار پولیس والے نے جان کی بازی لگا کر مزید بدنامی سے بچایا تھا2014میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے145اسٹاف ممبرز اور اسکول کے طلباء طالبان نے دن دیہاڑے دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا۔آپ خود فیصلہ کریں آپ انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کے کھلاڑی ہونے کے ناطے وہاں کس پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔کیا یہ حقیقت نہیں رمیز راجہ، افسوس اور دکھ ظاہر کر رہے ہیں بس ایک بات انہوں نے اچھی کہی ہے اس کا جواب کھلاڑی میدان میں دیں۔اب یہ ہماری ٹیم اورPCBکا امتحان ہے ہم دعا ہی کرسکتے ہیںکہ یہ سب پاکستان کی بہتری کے لئے تعصب اور ایک دوسرے سے نفرت ختم کرکے پورے پاکستان سے ایسی ٹیم کا چنائو کریں جو دشمنوں(انڈیا پیش پیش)کے چھکے اڑا دے واویلا افسوس، سیاسی دبائو یا سفارش اسکا جواب نہیں گھر کے میدان میں شیر ہو تو باہر بھی مقابلہ کرسکتے ہو۔بازی کھلاڑیوں کے ہاتھوں سے زیادہPCBکے کرتا دھرتا نااہلوں کے ہاتھ میں ہے بہت سی باتوں کا جواب خاموشی سے دینا پڑتا ہے۔شہریار آفریدی کے ساتھJFKپر کیا ہوا کیا نہیں ہوا الزام تراشی والے ملک دشمن ہیں بس اتنا کہ ہم اپنی ذاتی مفاد سے نکل کر صرف اور صرف پاکستان کیلئے سوچ سکتے ہیں۔
٭٭٭