دوست بنے دشمن! کیوں؟

0
54
کامل احمر

آج ٹی وی پرPTIکے بنیادی رکن علیم خان کی پریس کانفرنس دیکھی تو ہمارے عمران کیلئے رائے ڈگمگا گئی، ہم ساڑھے سات میل کی دوری پر بیٹھ کر جو دیکھتے ہیں اور اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں لکھتے ہیں وہ سب خبروں اور دوسرے ذرائع کے علاوہ گوگل سے لیتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی گوگل پر کوئی چیز مذہبی بنیاد پر آجاتی ہے پچھلے دنوں سہراب مودی جو بہت بڑے فلمساز، ہدایتکار، اداکار تھے کی فلم جھانسی کی رانی کیلئے ہندوستان سے کسی نے اپنی یادداشت کی مدد سے کہا کہ جھانسی کی رانی، پہلی رنگین فلم تھی انڈیا کی جبکہ یہ غلط ہے یہ فلم1953میں دہلیز ہوئی تھی جب کہ محبوب خان کی فلم آن1984میں ریلیز ہو کر دھوم مچا چکی تھی۔انڈیا سے مسلمانوں کے متعلق بہت سی باتیں گوگل میں غلط بیان کی گئی ملیں گی اس میں دوش گوگل کا نہیں بلکہ گوگل کو معلومات فراہم کرنیوالے کا ہے جس کی معلومات یاتو کم ہیں یا تعصب کی عینک پہنے ہوئے ہے۔ ایک خوبصورت قول لکھتے چلیں جو امریکن لکھاری کا ہے ”ہنری آدم ”نے سیاست کے تعلق سے بے حد خوبصورت بات کہی تھی ”اگر آپ کا دوست پاور میں ہے تو سمجھ لو وہ آپ سے بچھڑ گیا ہے یہاں علیم خان کی باتیں سن کر لگا یہ بات عمران خان کیلئے ہے اور جو کچھ بھی عمران خان پر انہوں نے الزامات لگائے اور دعوے کے ساتھ چیلنج کیا تو ہمیں سوچنا پڑا کہ اس کے پیچھے کیا ہے۔ ہم یہ کہتے چلیں کہ آج کے پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ملک اور قوم کیلئے خوش آئند بات نہیں ہے لگتا ہے ایک بھونچال سا آیا ہوا ہے۔پہلے قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی عمران خان کے خلاف ووٹنگ نہیں ہوئی پھر عمران خان نے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کردیا اور باجوہ صاحب کی دی گئی تین باتوں میں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، اب یہ کہنا کہ جنرلز مداخلت نہیں کر رہے، غلط ثابت ہوتی ہے، یہ بھی درست ہے کہ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال ہو تو مداخلت ضروری ہے، ہمیں اعتراض نہیں حالات کو قابو میں آدمی کے علاوہ کون رکھ سکتا ہے۔یہاں یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ یہ سیاست داں ہی ہیں جو آپس میں گالی گلوچ اور جوتے بازی کرکے فوج کو موقع دیتے ہیں۔اگر ہمارے سیاست دان دوسرے مسلم ممالک کو دیکھ لیں تو شرم سے ڈوب مریں بہترین مثال ترکی ہے۔اور اس کے بعد ملائیشیاء ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ قوم پہلے ایک بنے اور اپنے اندر کا سندھی، پنجابی، بلوچی، پٹھان اور مہاجر کو نکال پھینکے جو دن بدن بڑھتا جارہا ہے ہم اسے زہر کہیںگے۔لیکن قوم کا ایک بننا اور قومیت کے جذبے سے بھرپور ہونے کی ذمہ داری حکمران پر جاتی ہے ۔شاہ ایران کے بعد خمینی نے تمام ایرانیوں کو ایک سمت میں لگا دیا اور جو شاہ ایران کے چاہنے والے تھے وہ یا تو چلے گئے باہر ملکوں میں یا پھر مارے گئے۔ہمارے یہاں کئی مارشل لگے لیکن باہر کی طاقتوں کے اشاروں پر ملک کو چلایا گیا یہ پالیسی شروع سے ہی لیاقت علی خان کے زمانے سے رہی۔اور امریکہ بہادر اپنی فطرت کے تحت یا ضرورت کے تحت اور حکومتیں بدلواتا رہا۔حتٰی کہ ہم قرض لے لے کر غلام بن گئے۔سوچنا پڑتا ہے برٹش دور کیا برا تھا انکی غلامی وڈیروں، چودھریوں اور بیوروکریٹ سے تو کہیں زیادہ اچھی تھی کہ رشوت کا نام نہ تھا۔ رشوت کی بات آئی تو علیم خان نے کھل کر کہا کہ ملازمتیں، عہدے اور ٹرانسفر رشوت کے پیسوں پر چلے ہیں۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہم بتاتے چلیں کہ ہمارے والد صاحب بھی بہت سے مسلمانوں کی طرح پاکستان آگئے ریلوے میں اسٹیشن ماسٹر تھے اور کافی ذہین ہونے کے باوجود انہیں چھوٹے موٹے اسٹیشن جیسے جھڈو، رینالہ خورد، جنگشاہی ملتے رہے پھر کسی نے بتایا لاہور ہیڈکوارٹر جائو اور وہاں جاکر پیسہ کھلائو ہر اسٹیشن کی قیمت ہے لیکن ابا جی اس قول پر چلتے تھے رشوت دینا اور لینا حرام ہے۔ سو انہوں نے ریلوے پر ناانصافی کا مقدمہ کردیا اور بارہ سال بعد جب وہ ملازمت سے ریٹائر ہو رہے تھے تو جا کر فیصلہ ہوا ۔ادھر سندھ میں آئیں تو زرداری کے دور میں اس کی بہن فریال نے دولت سے خوب ہاتھ دھوئے ہیں اور ہر ملازمت کے دام ہیں۔
علیم خان نے رشوت کے تعلق سے کوئی نئی بات نہیں کہی البتہ بشریٰ بی بی کی دوست نے فریال کا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا اور دبئی روانہ ہوگئی لیکن الزام تو حکمران پر ہی آتا ہے اور ذمہ داری بھی کہ حضرت عمر نے کہا تھا اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی مر جائے تو خدا کو جواب عمر نے دینا ہے۔باوجود اس کے کہ علیم خان عمران کو عثمان بزدار اور دوسرے انکی پنکی پیرنی عرف عام میں اسی نام سے جانی جاتی ہیں۔ہر چند کہ مستعفی ہونے کے بعد عمران کی مقبولیت میں راتوں رات اضافہ ہوا ہے کہKPKمیں انتخابات میںPTIجیت گئی ہے ایک بزرگ نے ابھی بات کہی کہ مہنگائی تو دنیا بھر میں ہے لیکن ہم عمران کے مخالف چوروں ڈاکوئوں کو ووٹ نہیں دینگے۔
میڈیا کے وارے کے نیارے ہو رہے ہیں جیو کیلئے عمران کا جانا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مترادف ہے۔حامد میر اور سلیم صافی گن گن کر بدلے لے رہے ہیں اور عوام کو ورغلا رہے ہیں۔یہ صحافت نہیں عمران سے ہمیں یہ امید نہ تھی کہ دوستوں کے مشوروں اور تنبیہ کے باوجود وہ بشریٰ بی بی کی ہی سنتا رہے گا دوسرے معنوں میں سوتا رہے گا لیکن اوپر دیئے گئے امریکی لکھاری کا یہ قول یہاں درست ہے کہ عمران طاقت کے نشے میں اپنے دوستوں کو جنہوں نے اسے ہر طرح سے سپورٹ کیا بھول چکا ہے۔جس کا خمیازہ بھگتا ہے کہ وہ چاپلوسوں کے درمیان سینہ تان کر چلتا رہا ہے اگر وہ آنیوالے انتخاب میں جو تین ماہ میں ہونگے پھر سے اقتدار آتا ہے تو یہ کمال حزب اختلاف کا ہے جس میں سب کے سب، لٹیرے ہیں، قاتل بھی ہیں اور منافق بھی ساتھ ہی وہ نالائق اولادوں کے بدنام زمانہ باپوں کی وجہ سے بھی، بلاول، حمزہ شریف، مونس الٰہی اور مریم نواز شریف کو مسترد کرسکتے ہیں، ان سب نے پاکستان کو ایک گہرے تاریک کنوئیں میں دھکیلا ہے۔یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جس کا مذاق انڈیا کا ہر چینل صبح شام اڑا رہا ہے۔پاکستان ہمیشہ اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار رہا ہے ہر تعلیم یافتہ جانتا ہے عمران خان نے امریکی ڈپٹی اسٹیٹ سیکرٹری کے خط کا سہارا لے کر اچھا کھیل کھیلا ہے لیکن گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کا سامنا ہے ابھی اور بھی عثمان بزدار اور پیرنی کے مخالف سامنے آئینگے بڑے بڑے انکشافات ہونگے ہم کسی سیدھے راستے پر نہیں چلینگے۔اللہ کی لاٹھی کو چھوڑ کر بیرونی لاٹھی کو ہی پکڑینگے اور کہیں کے نہ رہینگے کاش یہ سارے سیاستدان سائوتھ امریکہ کی تاریخ پڑھ لیتے۔کاش یہ عراق، لیبیا، یمن، شام کی تباہی سے کوئی سبق لیتے اور خود کو ایماندار رکھتے قرضوں کے ڈالر سے اپنے محل نہ بنواتے آخر جاپان کوریا اور تائیوان بھی تو امریکہ کی مالی امداد سے آگے بڑھے ہیں بس لیاقت علی خان کے بعد کوئی اللہ اور رسول کے حکم پر چلنے والا نہیں آیا اپنے ساتھ قوم کو بھی گندہ کرتا گیا۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here