میرے فیس بکی دوستوں میں بڑے بڑے کاریگر لوگ ہیں۔ ایک تحریر میں تبخیر لکھا معنی وہ لبرل لوگ جن کے پیٹ میں دکھی انسانیت کا مروڑ اٹھتا ہے ایسے تبخیر کاروں کو میں نے متوجہ کرنے کی کوشش کی کاریگروں نے میری عبادت پر غور کرنے کی بجائے میری املاء کی غلطیاں نکالنی شروع کردیں کہ مفتی صاحب کو تبخیر اور تخریب کے فرق بارے معلومات نہیں ہیں ، آج صبح میرے مسیج میں پھر ایک تبخیر کار لبرل نے بڑی دور کی کوڑی تلاش کرکے بھیجی۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے دین کا دارومدار عقل پر نہیں ہے اور نہ ہی اسے مادی پیمانوں پر پایا جاسکتا ہے۔ حالانکہ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ بات اپیل کرتی ہے کہ قربانی کی بجائے وہ رقم غریبوں کی مدد کر دی جائے۔ بلکہ ہم کتاب وسنت کے لوگ ہیں ہمیں قربانی کا حکم گوشت پوست کے لئے نہیں دیا گیا بلکہ اس کی بنیاد خالص نیت اور تقویٰ ہے ہمیں تو شکر ادا کرنا چاہئے۔ کیونکہ سابقہ امتوں کے لئے حکم یہ تھا کہ وہ جانور لا کر یا صدقہ کا مال میدان میں رکھ دیتے، آگ آتی جس کی قربانی منظور ہوجاتی اسے آگ جلا کر راکھ کر دیتی جن کی نامنظور ہوتی وہ کھڑی رہتی اور اس طرح وہ بدبخت عیاں ہوجاتا۔ قرآن کریم نے جابجا واقعات بیان کئے ہیں۔ ہابیل اور قابیل کا قصہ بھی یہی تھا۔ یہودیوں نے بھی سرکار دو عالم کو یہی کہا تھا قربانی پیش کرو۔ آسمان آگ جلا دے پھر ہم ایمان کے بارے سوچیں گے اس کی تفصیل سمجھنے کے لئے قرآن مجید کا مطالعہ کر لیا ذرا سوچیں سابقہ امتوں کی قربانیاں جل کر خاک ہوجاتیں کسی کے کام نہ آتیں ہماری قربانیاں ہمارے کام آتی ہیں۔ گوشت پوست ہم خود ہی استعمال کرتے ہیں لیکن یہ عمل اللہ کی بارگاہ منظور ومقبول ہے سرکار دو عالم نے فرمایا قربانی کے دن خالص نیت سے کی ہوئی قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ اس کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے کون جانتا ہے کسی غریب کا پچاس ساٹھ ہزار کا بکرا یا گائے کا بیس ہزار کا حصہ مقبول ہوا ہے۔ یا دس لاکھ کا بکرا پچاس لاکھ کے بیل کی قربانی منظور ہوئی ہے اللہ نے سب کی عزتوں کو محفوظ فرمایا لیا۔ وگرنہ دس لاکھ رد ہو جائے اور پچاس ہزار کا بکرا مقبول ہوجاتا تو کیا ہمارے پلے کچھ عزت رہ جاتی کیا ہم سوسائٹی میں چلنے پھرنے کے قابل رہ جاتے قربانی ویسے بھی ایک ایسا عمل ہے جس سے کئی لوگوں کا روزگار متعلق ہے مویشی پالنے والے منڈیوں میں لانے والے چارے والے قصاب چمڑے کا کاروبار کرنے والے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور چمڑے کی مصنوعات، غرضیکہ کتنے لوگوں نے کاروبار وابستہ ہیں۔ چالیس ہزار روپیہ تو ایک مہینہ کا بجلی کا بل چلا جائے گا۔کیا غربت ختم ہوگئی نہیں اس ایک غریب کی بجائے ان تمام لوگوں کی روزیوں پر ہم کیوں لات مارنے پر تلے ہوئے ہیں دینی مدارس فلاحی تنظیمیں یہ بھی غریبوں کے لئے ہی کام کرتے ہیں۔ اے میرے لبرل درد مند بھائی اپنے چودہ سو ڈالر کے آئی فون کو بیچ کر چار سو کا فون خرید اور ایک ہزار غریبوں کی مدد کر دو تو پھر میں سمجھوںگا کہ آپ کے سینے میں غریبوں کا درد ہے۔ ایسا ہی میرا ایک درد مند لبرل غریبوں کا ہمدرد جہاز میں بزنس کلاس میں سفر کر رہا تھا اور میں اکانومی کلاس میں تھا۔ وہاں سٹیٹس کو آجاتا ہے اے بھائی اُٹھ قربانی کر غریبوں کی دعا لے۔