اسحاق ڈار کا اخباری نمائندہ کو تھپڑ! !!

0
36
پیر مکرم الحق

موجودہ وفاقی وزیر خزانہ نے ڈان اخبار کے نمائندہ جاوید قریشی پر ہاتھ اٹھا کر جنرل اسلم بیگ کی اعزاز سید سے2012ء میں بدتمیز کی یادتازہ کردی۔ مجھے صرف اسحاق ڈار سے ایک سوال کرنا ہے۔HOW DARE YOU?اسلم بیگ تو ایک ریٹائرڈ جنرل تھا لیکن اعزاز سید سے بدتمیزی کرکے انہوں نے اپنا اصلی روپ دیکھا دیا۔ باوجود اسکے کہ جنرل بیگ نے ایک سیاسی جماعت بھی بنانے کی کوشش کی تھی جسکا نام ”عوامی قیادت پارٹی” تجویز کیا گیا تھا۔ لیکن ایک رپورٹر(اعزاز سید) کے اس سوال پر کے” آپ کا کیا کردار تھا آئی جی آئی بنانے میں یاد رہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے خلاف حمید گل، اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی نے بنوایا تھا۔ 14کروڑ کی رقم مخالف جماعتوں کے اس اتحاد میں تقسیم کئے گئے تھے جس میں جماعت اسلامی سمیت بہت سارے شریف اور معتبر سیاستدانوں کے نام بھی شامل تھے۔ یہ مقصد اب تک سپریم کورٹ کی کسی بوسیدہ الماری میں ایک پھٹی ہوئی فائل میں اپنے مقدر کا انتظار کر رہا ہوگا۔ اعزاز سید کو جنرل بیگ کی اس زیادتی کا صلا یہ ملا کہ وہ آج ایک مشہور اور مستند صحافی کا رتبہ رکھتے ہیں لیکن اسلم بیگ اپنا مقام کھو کر اپنی جماعت قیادت پارٹی کی قیادت بھی نہ کر پائے۔ آج بھی91برس میں زندہ ہیں لیکن اپنے پر لگائے گئے الزامات پر آج بھی خاموش ہیں لیکن اعزاز سید آج بھی سوالات اٹھا رہا ہے اور جوابات حاصل کرنے کی جستجو میں مگن ہے۔ اسحاق ڈار صاحب1990کی دہائی سے سیاست کے سمندر کے تیراک ہیں نیب زدہ بھی رہے اور نواز شریف کے سمدھی ہونے کے باوجود نوازشریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بھی بنے۔ کیونکہ انکا پہلا کام اکائونٹنٹ کا تھا یہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہمیں اس پیشہ کو بڑی عزت اور تکریم کی نظر سے دیکھا جاتا ہے نہ صرف پاکستانی معاشرے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ لیبیا اور کئی مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں کی نوکری چاکری کرتے ہیں جو پاکستانیوں کو کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اس لئے ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ وہاں ڈار صاحب کو ریال اور دینار تو بہت ملتے ہونگے لیکن زیادہ بولنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی ایک تو ڈار صاحب شروع سے اکھڑ مزاج رکھنے والی شخصیت رکھتے ہیں پھر عرب دنیا کے ریگزاروں میں شاہوں کی ملازمت کرتے رہے پھر30سال سے سیاست کرنے والے ہر شخص کو معلوم ہوتا ہے کہ اخباری رپورٹر کے سخت سے سخت سوال کو یا ہنس کے ٹال دیا جاتا ہے یا صرفNO Commentکہ کر گزر جایا جاتا ہے آج کے دور میں آپ کوئی بھی ہوں آپ اپنے چڑچڑے موڈ کا اظہار کشی اور پروفشنل بندے پر اتار نہیں سکتے۔ خصوصاً اخباری نمائندہ پر جسکا کام ہی آپ سے سوال کرنا ہوتا ہے اور پھر اخباری نمائندہ کو تھپڑ مار دینا محسوس یہ ہوتا ہے کہ ڈان کے اخباری نمائندہ شاہد قریشی نے ڈار صاحب کی دکھتی رگ پر پائوںرکھ دیا وہ دکھتی رگ ہے آئی ایم ایف سے معاہدے کرنے میں ناکامی اور جب شاہد قریشی نے ان سے پوچھا کہ وزیراعظم شہبازشریف کل پیرس میں آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر صاحبہ سے ملاقات کے بعد کافی پراُمید ہیں۔ تو ڈار صاحب نے اس بات کو طنز کا تیر سمجھ کر تلملا اٹھے اور نہ صرف شاہد قریشی پر جھپٹ پڑے ساتھ میں اپنے سکیورٹی اسٹاف کو کہا کہ رپورٹر سے فون چھین لو اور اسے اپنے طور پر باہر لے جا کر سبق سکھائو کیا؟ کہاں ہیں ڈار صاحب آپ بھائی گیٹ میں نہیں ہیں یہ ایوان نمائندگان ہے پاکستان کا پارلیمنٹ ہائوس ہے یہاں پر آئین پاکستان کا راج ہے اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کی گارنٹی آئین دیتا ہے آپ وزیر خزانہ ہیں اس ملک کے گورنمنٹ کالج لاہور کے بدمعاش نہیں کہ سوال پوچھنے والے رپورٹر کو سبق سکھانے جارہے ہیں۔ شرم کا مقام ہے آپ جیسے لوگ جمہوریت کے چہرے پر سیاہ داغ ہیں۔ خواجہ آصف بھی کشمیری ہیں وہ بھی آپکی عمر کے برابر ہیں انہوں نے جیلیں بھی کاٹیں ہیں بڑی عزت و وقار کے ساتھ کاٹیں ہیں اپنے قائد کیا کسی ساتھی کے خلاف بھی گواہی نہیں دی لیکن اتنی اچھی طرح سے میڈیا سے بات کرتے ہیں۔ ڈار صاحب آپ نے تو کشمیریوں کا نام ڈبو دیا جو عزت کرنا اور کرانا جانتے ہیں آپ کو فوری طور پر شاہد قریشی کو پریس کانفرنس کرکے سب صحافیوں کے سامنے معافی مانگنی چاہئے۔ آپ کی جماعت کا ہمیشہ سے یہ موقف ہے کہ آپ میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کی عزت کرتے ہیں۔ اگر آپ میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ شاہد قریشی سے معافی نہیں مانگتے تو استعفیٰ دے دیں۔ کیونکہ جب تحریک انصاف کی حکومت میں فواد چودھری نے سمیع ابراہیم کو تھپڑ رسید کی تھی تو بھی اخباری صعت سے منسلک تمام افراد نے فواد چودھری کی شدید مذمت کی تھی۔ اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ اس حکومت کے فواد چودھری بننا چاہتے ہیں یا معذرت کرکے اپنی ذات اور اپنی جماعت کو رسوائی سے بچا لیں ورنہ پھر کسی دن آپ کو بھی فواد چودھری کی طرح دوڑیں لگانی پڑینگی کیونکہ یہ مکافات عمل ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here