اس طرح تو ہونا تھا ایسا ہنگامہ تو اب برپا کیا ہی جانا ہے۔ یہ سارا کھیل سجایا ہی اسی لئے گیا ہے۔ یہ میلہ جس چادر کو چھپنے کے لئے لگایا گیا ہے وہ مملکتِ خداداد پاکستان کی سالمیت، بقا اور استحکام کی چادر کی ہے۔ اس ملک کے پچاس سال سے گروی شدہ نام نہاد اقتدارِ اعلی پر مکمل قبضے پر بڑی طاقتوں میں جنگ اس دن سے شروع ہو گئی تھی، جب گیارہ اکتوبر 2011 کو امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا فارن پالیسی میگزین میں مضمون امریکہ کی بحرالکاہل میں اگلی صدی کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں اس نے تمام امریکی تھنک ٹینکوں کی مرتب کردہ خارجہ اور عسکری پالیسی کا واضح خاکہ بتایا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ آئندہ صدی کی امریکی سیاست اور خارجہ پالیسی کا مرکز افغانستان اور عراق کی بجائے ایشیا ہو گا، جس کی بنیادی وجہ ابھرتی ہوئی عالمی قوت چین کی معاشی اور جغرافیائی ناکہ بندی ہے۔ ٹھیک آٹھ سال بعد 4 نومبر 2019 کو امریکی عسکری قوت کے مرکز پینٹا گون نے اپنی اس پالیسی کے مرکز و محور ایشیا کا حدود اربعہ بھی بتا دیا، کہ اب امریکہ بحرِہند اور بحرالکاہل کے سمندروں پر مکمل اختیار اور قبضے کی جنگ میں داخل ہو رہا ہے۔ اسے کا نام دیا گیا۔ یہ حکمتِ عملی اس وقت دنیا کو ایک بار پھر دو بڑی قوتوں کے درمیان جنگ کی طرف کشاں کشاں لے کر آ چکی ہے اور امریکی اس جنگ میں اپنے کسی بھی ہدف کو نہیں چھپا رہے۔ ان کے نزدیک اس دنیا کے وسائل، آبی و بحری راستوں اور ان راستوں سے وابستہ معیشت کو اپنے تابع کرنے کے لئے انہیں گذشتہ بیس سالوں سے دنیا کے نقشے پر معاشی قوت بن کر ابھرنے والے چین کو روکنا ہے اور اس کے ہر اتحادی کا سر کچلنا ہے، خواہ وہ ایک بار پھر سے ابھرتی ہوئی قوت روس کیوں نہ ہو۔ جن دو ملکوں کو روس اور چین کی شہ رگ سمجھا جاتا ہے اور جن کا جغرافیائی محلِ وقوع چین اور روس کے لئے اس قدر اہم ہے کہ جیسے ان معیشتوں کو سانس لینے کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہو وہ یوکرین اور پاکستان ہیں۔ یوکرین سے بحرِ اسود کی ناکہ بندی ہو سکتی ہے اور پاکستان سے بحیرہ عرب اور بحر ہند کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ دونوں ہی روس اور چین کی معیشتوں کے لئے لائف لائن ہیں۔ یوکرین کو پاکستان میں تازہ برپا ہونے والے سیاسی تماشے سے چھ سال پہلے گزارا جا چکا ہے اور آج ہم پر بھی وہی حکمتِ عملی آزمائی جا رہی ہے۔ سوویت یونین سے آزادی کے بعد امریکی سی آئی اے نے کمال محنت اور وسیع سرمائے کی مدد سے یوکرین میں ایک ایسی سیاسی قیادت کو جنم دیا، جس کے دل و دماغ یورپ کے حق میں خرید لئے گئے تھے۔ اس کے لئے انہوں نے اس ملک کے اس قوم پرستانہ تنازعے کو استعمال کیا جو وہاں آباد 23 فیصد روسی اور 77 فیصد یوکرینی عوام کے درمیان موجود تھا۔ یوکرین پر آزادی کے بعد سے ہمیشہ سے ایسے سیاسی گروہ کی حکمرانی رہی ہے جو روس کی جانب اپنا رجحان رکھتا تھا۔ اس پارٹی کا وکٹر یاکووچ جب 2004 میں برسراقتدار آیا تو اپنے خاص ہتھکنڈے کو استعمال کرتے سپریم کورٹ کے ذریعے اس کے خلاف فیصلہ لیاگیا، جس نے الیکشنوں کو دھاندلی زدہ قرار دیا۔ اب یورپ نواز اپوزیشن کے ہاتھ میں عدالتی فیصلے کا ایک ایسا ہتھیار آ گیا جس کی مدد سے ان کے لیڈر یش چینکو نے جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں کا آغاز کر دیا۔ لیکن پھر وہ اچانک شدید بیمار پڑ گیا۔ ایک ہمدردی کا نعرہ بلند کیا گیا کہ اسے روس کی خفیہ ایجنسی نے زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی ڈرامے، ہنگاموں اور زہر خورانی سے پیدا ہونے والے ہمدردی کے جذبات نے اسے اقتدار کی کرسی پر پہنچا دیا اور روس کا ہمدرد صدر وکٹریان کووچ اپوزیشن میں چلا گیا۔ یوکرین میں سیاسی قیادت خرید کر عوامی جذبات برانگیختہ کر کے اقتدار کی تبدیلی کو دنیا بھر کے دانشور زرد انقلاب (Orange Revolution) کہتے ہیں۔ اپوزیشن کی اس تحریک کو جن عالمی ڈونرز اور یورپی ممالک کے اداروں نے براہِ راست سرمایہ فراہم کیا، ان میں امریکہ کا (1)سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (2) یو ایس ایڈ (3) National Democratic Institute for International Affairs (4) International Republican Institute (5) Freedom House اور (6) George Soro’s Open Security شامل تھے۔ جبکہ 1988 سے ہی امریکہ کا National Endowment Fund for Democracy یوکرین کی سیاسی پارٹیوں کو خفیہ طور پر سرمایہ فراہم کرتا چلا آ رہا تھا۔ جب ان بکائو سیاسی پارٹیوں نے سپریم کورٹ کی مدد اور میڈیا کے پروپیگنڈے کے ذریعے روس کے حمایت یافتہ صدر کا تختہ الٹ دیا تو گارڈین (Guradian) کے ذریعے ان تمام غیر ملکی اداروں کے نام بھی شائع کروا دیئے گئے جو اس زرد انقلاب میں فنڈ مہیا کرتے تھے۔ یہ ہوتی ہے دیدہ دلیری۔ اب روس کو خطرے کا احساس ہوا اور اس نے بھی یوکرین کی سیاست میں اسی طرح حصہ لینا شروع کر دیا جیسے یورپ اور امریکہ لیتے ہیں۔ ایک ایسی کشمکش شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں روس کا حمایت یافتہ وکٹریان کووچ ایک بار پھر 2010 میں برسر اقتدار آ گیا۔ اب امریکہ نے گذشتہ دس سالوں سے سیاسی پارٹیوں اور این جی اوز کو دیئے گئے فنڈز سے تماشہ لگانا شروع کیا۔ ان سیاسی پارٹیوں نے اپنے ورکروں کو آہستہ آہستہ سڑکوں پر لانا شروع کیا، جن کا نعرہ یہ تھا کہ ہمیں روس کو چھوڑ کر یورپی یونین کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہئے۔ دوسری جانب صدر یاکووچ کے حامی بھی روس کے کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنا شروع ہوئے اور پورے ملک میں ایک تصادم کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ جب نومبر 2013 میں معاملہ زیادہ بڑھنے لگا تو امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک کھل کر سامنے آ گئے۔ ان کے سفیر اپوزیشن رہنمائوں سے نہ صرف کھل کر ملاقاتیں کرنے لگے، بلکہ یورپی یونین کی حمایت میں نکالے جانے والے جلوسوں اور دھرنوں میں بھی کھلے عام شرکت کرنے لگے۔ اس کے بعد ممبرانِ اسمبلی کی خرید و فروخت کا کاروبار امریکی سرمائے سے شروع ہوا۔ روس کے منظورِ نظر صدر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ اس نے ڈٹ جانے اور مقابلہ کرنے کی کوشش کی، لیکن پولیس اور فوج میں امریکی سرمائے کے زور پر بنائی گئی لابی نے ہنگاموں پر قابو پانے والے تمام قوانین پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ دارالحکومت کیف کی سڑکوں پر لڑائی شروع ہوئی، 98 لوگ مارے گئے، 15 ہزار زخمی اور سو لوگ لاپتہ ہو گئے۔ تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہی قوم کو خون خرابے سے بچانے کے لئے یاکووچ نے ایک معاہدے پر دستخط کئے، نئے الیکشن کا اعلان کیا، استعفی دیا اور روانہ ہو گیا۔ یوکرین کی صورتِ حال کے تناظر میں پاکستان کے موجودہ حالات کو رکھ کر دیکھیں اور تمام تعصبات کو ذہن سے نکال کر صرف اور صرف پاکستان کے لئے سوچیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اگر چند دن بعد عمران خان کے متوالے اور اپوزیشن کے جیالے اسلام آباد پہنچتے ہیں تو پھر اس کے بعد کیا کچھ کیا یا کروایا جا سکتا ہے۔ امریکی پالیسی کے حوالے سے یوکرین اور پاکستان میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔ امریکہ یوکرین کو ایک پر امن اور اپنا اتحادی ملک بنا کر اپنا حلیف رکھنا چاہتا ہے، جبکہ پاکستان کے بارے میں اس کی پالیسی یہ ہے کہ اسے مسلسل عدم استحکام کا شکار، معاشی طور پر پسماندہ اور مستقل افراتفری کا شکار ملک بنایا جائے۔ ایسے میں قوت و اقتدار کی وہ جنگ جو امریکہ نے اگلی پوری صدی کے لئے چین کے خلاف شروع کر رکھی ہے، اس میں پاکستان اب ایک عالمی کھینچا تانی کا اہم مرکز بن چکا ہے۔ ایک خونریز ہنگامے کی دیر ہے، ایک چنگاری کے سلگنے کی بات ہے اور اس کے بعد جو ہوتا نظر آ رہا ہے، اس میں نہ سیاست بچے گی نہ سیاست دان، نظام بچے گا اور نہ نظام کے پروردہ۔ وہی رہے گا جو اس کشمکش میں جیتے گا۔ اور ایک بات یاد رکھو یہ کوئی نظریاتی جنگ نہیں ہے اور جب جنگ کسی نظریے کے لئے نہ ہو، بلکہ صرف اور صرف اقتدار اور غلبے کے لئے ہو تو پھر وہاں وہی جیتتا ہے جو طاقتور ہوتا ہے۔
٭٭٭