موجودہ صدی میں دنیا بھر میں دو حکمران ٹرمپ اور عمران خان پائے جارہے ہیں جو اپنی اپنی پارلیمنٹوں پر حملے کررہے ہیں۔جو دراصل عوام پر حملہ آوری کے مرتکب ہو رہے ہیں، صدر ٹرمپ نے اپنے آخری صدارتی ایام میں نئے انتخابات کو نہ تسلیم کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو امریکی کانگریس پر حملہ آوری کے لیے اُکسایا جس میں کانگریس مینوں کو اپنی جانیں بچانا مشکل ہوچکا تھا۔ٹرمپ کے فسادیوں نے کانگریس مینوں اور نائب صدر کو نشانہ بناتے ہوئے کانگریس ہال میں گھس گئے جن کے پاس ہتھیار تھے۔جن سے قانون سازوں نے چھپ چھپ کر جانیں بچائی تھیں۔اسی طرح پاکستانی موجودہ حکمران عمران خان نے بھی پہلے2014میں اپنے بلوائیوں کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ ہائوس وزیراعظم ہائوس تھانوں، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پی ٹی وی او رسرکاری عمارتوں پر حملے کیے۔عوام کو سول نافرمانی پر اُکسایا کہ وہ قانون کو نہ مانیں۔ٹیکسوں واجباتوں اور بلوں کی ادائیگی مت کریں۔سپریم کورٹ سمیت آئینی اداروں کو پامال کیا تھا۔جس کے لیے دنیا کے مہنگے ترین دھرنے پر سوا ارب خرچ کیا۔چار ماہ کے دھرنی سے پورا دارلخلافہ اسلام آباد جام رکھا آج پھر وہی شخص سرکاری طور پر پارلیمنٹرین پر حملے کرانے کے لیے سرگرم ہوچکا ہے۔جس میں پارلیمنٹرین کی پناہ گاہ سندھ ہائوس میں حملہ کرایا گیا جس کے خوف سے پارلیمنٹرین ملک بھر میں چھپ چھپ کر وقت گزار رہے ہیں جس کے سامنے پاکستانی قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس اور بے اختیار ہوچکے ہیں۔پورے ملک میں خوف وہراساں پایا جارہا ہے پارلیمنٹرین پر ذہنی تشدد کیا جارہا ہے جس کے لیے گالی گلوچ کا استعمال ہو رہا ہے۔جو ایسی غلیظ زبان استعمال کر رہا ہے جس سے معاشرے میں تشدد آمیز رویہ جنم لے رہا ہے جو کل خانہ جنگی کا باعث بنے گا۔تاہم امریکی سابقہ صدر اور پاکستانی مسلط حکمران عمران خان کے عادات واطوار میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔دونوں فاشنرم کے حامی ہیں۔دونوں جھوٹے اور بہتان باز ہیں۔دونوں کے اقوال اور اعمال میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتاہے۔دونوں ا پنی اپنی عوام کو بیوقوف بنانے کے ماہر ہیں۔دونوں جنسی اسیکنڈلوں میں ملوث رہے ہیں۔دونوں خون وخرابے کے حامی ہیں۔دونوںنشہ آوری کے عادی ہیں دونوں خانہ جنگی کے دلدار ہیں۔دونوں آئین اور قانون شکنی کو ترمیم دیتے ہیں۔دونوں آئینی اداروں کا احترام کرتے ہیں دونوں اپنی ناکامیوں، نااہلیوں اور ذلالتوں پر شرمندہ نہیں ہوتے ہیں، دونوں انسانی شہری اور بنیادی حقوق کے دشمن ہیں، دونوں سے انسانیت کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں وغیرہ وغیرہ بہرکیف امریکہ اور پاکستان کی پارلیمنٹوں پر سرکاری طور پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں امریکہ میں کیپٹل ہل پر چھ سو کے قریب حملہ آوروں پر مقدمات درج ہوچکے ہیں جن کو قانون کی گرفت میں لایا جارہا ہے۔جس پر سابقہ صدر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگر دوبارہ2024ء میں صدر منتخب ہوا تو وہ تمام کانگریس پر حملہ آور مجرموں کو عام معافی دیگا جس سے لوگوں میں پارلیمنٹوں اور پارلیمنٹرین پر حملہ آوری کا مزید حوصلہ بڑھے گا۔جس سے امریکی جمہوریت کو بے تحاشہ نقصان پہنچے گا۔اسی طرح پاکستان میں عمران خان کے اشاروں پر پارلیمنٹرین پر حملے جاری ہیں جنہوں نے خفیہ مقامات میں پناہ لے رکھی ہے۔
جو اپنے ضمیر کے مطابق موجودہ حکومت کی ناکامیوں، نااہلیوں اور لاپرواہیوں کے خلاف عدم اعتماد میں ووٹ دینا چاہتے ہیں جن کو ان کے آئینی حق سے روکا جارہا ہے جس کے لیے عمران خان نے27مارچ کو اپنے فسادیوں اور شرپسندوں کو ڈی چوک میں جمع کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ پارلیمنٹرین کو ووٹنگ سے روکا جائے چاہے اس کے لیے کوئی تشدد آمیز طریقہ کار اختیار کرنا پڑے جو پاکستان کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوگا۔وہ ملک جو پہلے ہی دنیا بھر کی گرے لسٹ میں ہے۔جس کو بلیک لسٹ میں ڈالوانے کے لیے ملک میں سرکاری طور پر دہشت گردی پیدا کی جارہی ہے۔جس میں عمران خان ہٹلر نما شخص بن کر سامنے آیا ہے۔
بہرحال پاکستان میں موجودہ بدترین حالات و واقعات کے تحت سپریم کورٹ کو ازدخود نوٹس لینا چاہئے۔کہ جو حکومت کو ملک میں امن وامان قائم کرنے پر مجبور کرے۔اگر حکومت عدالتی احکامات نہ مانے تو سپریم کورٹ فساد زدہ علاقوں میں فوج کی تعینات کرے جس کے عدالتی حکم پر فوج بطور قانون نافذ کرنے والے ادارہ کام کریگی۔جس میں موجودہ انتظامیہ بے اختیار ہوگی جس کا آئین پاکستان سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے۔اس لیے کسی بھی حالات میں ملک میں کسی قسم کا غیر قانونی اور غیر آئینی مارشلا نما اقدام اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔جس کے خدشات پائے جارہے ہیں لہذا ایسے موقع پر آئین اور قانون سے باغی حکمرانوں کو سپریم کورٹ لگام دے سکتی ہے۔ملزمان کو ملک میں انتشار پھیلانے اور قانون شکنی پر عدالت سزائیں دے سکتی ہے۔تاکہ پاکستان کو خانہ جنگی سے بچایا جائے جس کے اثرات دن بدن پیدا ہو رہے ہیں جو ایک مریض کو بچانے کا عمل ہوگا جس کو فوری علاج اور دوا چاہئے اس لیے سپریم کورٹ کو دیر نہیں کرنا چاہئے ورنہ دیر ہوگئی تو بات بہت بگڑ جائے گی۔
٭٭٭٭