”بے چینی اور گھبراہٹ”

0
114
شبیر گُل

اخلاقی رواداری معاشرے کے خْسن اور ترقی کی علامت ہوا کرتی ہے۔معاشرہ میں بگاڑ اور عدم توازن ،انصاف کی کمی ، بیروزگاری اور ہٹ دھرمی سے پیدا ہوتا ہے۔اچھا لیڈر اور اچھا منصف معاشرہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔جب لیڈر سیاست میں نفرت اور منصف قلم بیچے گا تو معاشرے کا وہ حال ہوگا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ جج بکاؤ مال۔ جرنیل لْٹیرے۔بیوروکریٹ منہ زور ،آفیسرز پیسے کے پْجاری ہیں۔ معاشرہ کو تقسیم در تقسیم کر دیا گیا ہے۔عدلیہ کسی طاقتور کاکیس سْننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے صیح فیصلے کر نہیں پاتے۔ چوروں کو کھلی چھوٹ ہے۔لینڈ مافیا،شوگر مافیا،آٹا مافیا اور بجلی مافیا اسمبلیوں میں بیٹھا ہے۔ سابق جرنیل، سابق بیوروکریٹ اور سابق جج ہر حکومت کی ذینت ہوتے ہیں۔پاکستان میں جرنیل اور بیوروکریٹ کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ریٹائرمنٹ کے بعد مرتے دم تک حکومتی عہدوں سے چمٹا رھتا ہے۔ملکی وسائل چند خاندانوں کے ہاتھوں میں ہیں۔مسڑ تبدیلی ، نیا پاکستان کے معمار وزیراعظم کرپشن ختم کرنے نکلے ہیں۔ کل کے دہشت گرد انکے ساتھ ہیںجن کے ساتھ چوروں ،لْٹیروں ،شوگر، لینڈ اور آٹا مافیا کی ٹیم ہے جب حکمرانوں کے وزیر اور مشیر شوگر ملیں اور بڑے کاروباری ادارے چلاتے ہیں تو مہنگائی کو قابو کرنا مشکل ہوا کرتاہے۔ قوم مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے لیکن یوتھیا کہتا ہے کہ ہوٹلوں پر رش ہے۔ یوتھیے نے پٹواری کی عینک، ڈکٹیٹر کی چھڑی پکڑ رکھی ہے۔ اْسے جیالے کی طرح بھٹو زندہ نظر آتاہے۔ چاہے اْس سے جینے کی بنیادی سہولتیں چھین لی جائیں۔ہم اندھی تقلید کے قائل ہیں۔ مذہب اور سیاست میں اندھے بن کر بھیڑ چال کیطرح ایک ہی سمت چلے جارہے ہیں۔جو زبانیں گزشتہ ادوار میں مہنگائی اور بے انصافی کارونا روتی تہیں۔ آج انکی زبانیں گْنگ ہیں،ہم بیرون ملک ہوں یا اندرون ملک ،اخلاقی پستی کا شکارہیں۔پردیس میں بھی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد کے قائل ہیں ، بحیثیت قوم ہمارا کوئی رول نہیںہے۔دیس/ پردیس میں نفرت اور دشمنیاں پال رکھی ہیں۔مسجد میں ہوں یا بزنس میں ایکدوسرے سے فاصلہ اور دشمنی کو وطیرہ بنا لیا گیا ہے۔نہ وہ الفت اور نہ ہی وہ محبت نظر آتی ہے جوہماری مٹی نے ہمیں دی ہے۔اوورسیز پاکستانیوں کی کونسلنگ کا اہتمام ہونا چاہئے۔ہمیں فوٹو ایپس سے نکل کر کمیونٹی کے سنجیدہ مسائل کیطرف آنا چاہئے۔ خلیج ، یورپ اور امریکہ میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد بستی ہے۔ جو مذہبی، لسانی اور پارٹی پالیٹکس کا شکار ہیں۔ مختلف اکائیوں میں بٹّے ہیں گزشتہ دنوں سعودی عرب میں پاکستانیوں کے دو گروپ آپس میں جھگڑ پڑے ، ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال اور ایکدوسرے پر پٹرول چھڑک کر آگ لگادی گئی،ہم اخلاقی طور پر انتہائی پسماندگی میں گھر چکے ہیں۔ہم نے علاقائی سیاست ، برادری عزم اور پارٹی پالیٹکس کواوڑھنا اور بچھونا بنا لیاہے۔نیویارک میں چند شرپسند عناصر نے کمیونٹی کے معزز افراد کے خلاف بیہودگی اور بد تہذیبی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔کچھ عرصہ پہلے چند نام نہاد صحافی شرفاء کی پگڑیاں اچھال کر تماشہ بنے ہوئے تھے۔
پی ٹی آئی کے کارکن حکومت کی تین سالہ کارکردگی کے باوجود دن میں تارے دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔سوشل میڈیا پر ابھی تک عمران خان کے 92 کے ورلڈ کپ کی جیت کو صدی کا عظیم کارنامہ قرار دیا جارہا ہے۔حکومتی اتحاد کا ٹوپی ڈرامہ جاری ہے۔ ایم کیو ایم کے غنڈے اپنے دفاتر کھلنے کی یقین دہانی پر ساتھ نبھانے کے لئے مان گئے ہیں۔ ریاست مدینہ کی رٹ لگانے والوں کو عوام کو مہنگائی ،انصاف کا ریلیف تو نہ دے سکے البتہ قوم کو پی ٹی آئی سے مایوس کردیا۔ہچکولے کھاتی معیشت ، وزیروں کے دن میں خواب اور بدزبانی نے ایم کیوایم کی طرز سیاست کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکن حکومت کی تین سالہ کارکردگی کے باوجود دن میں تارے دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔آجکل پی ٹی آئی کے وزرائ،لیڈر اور کارکن اسی مخمصے میں ہیں کہ ریاست مدینہ کی بات کریں یا دور خلافت کی۔ کیونکہ ان وزیروں مشیروں اور کارکنان کو اپنے گناہ ،کرپشن اور جھوٹ چھپانے کے لئے پی ٹی آئی کی حکومت کو فتح مکہ اور ریاست مدینہ جیسی کامیابی قرار دیا جارہاہے۔پی ٹی آئی میں ہمارے کئی دوست ، گھروں سے جوتے کھاکر بڑی ڈھٹائی سے کہہ ر ہے ہیں، خان تو ایماندار ہے۔ یہ تو بندہ ان سے پوچھے کہ سو چوہے کھاکر بھی بلی حاجن بنی بیٹھی ہے اورہم نئے پاکستان کی خوشی میں لْڈیاں ڈال ر ہے ہیں۔تبدیلی کے اس ماحول نے پی ٹی آئی کے کارکنان تھوڑے سے شرمندہ اور کچھ ڈھیٹ بن کر گھوم ر ہے ہیں ۔ ایک بادشاہ بازار سے گزرا،وہاں ایک چودھری 2 روپے میں گدھا بیچ رہا تھا۔اگلے دن بادشاہ پھر وہاں سے گزرا،وہ پھر وہیں بیٹھا گدھا بیچ رہا تھا۔بادشاہ رک گیا اور اس سے پوچھا کہ گدھا کتنے کا ہے۔اس نے دیکھا کہ بادشاہ ہے،اس نے قیمت 50 روپے بتا دی۔بادشاہ بولا کل تو تم 2 روپے کا بیچ رہے تھے۔اب وہ گبھرا گیا اور گبھراہٹ میں اس نے کہہ دیا کہ اس پر بیٹھ کر آنکھیں بند کرو تو مدینہ کی زیارت ہوتی ہے، اس لیے اس کی قیمت زیادہ ہے۔بادشاہ نے وزیر کو کہا کہ بیٹھ کر دیکھو کچھ نظر آتا ہے کہ نہیں۔وزیر بیٹھنے لگا تو چودھری نے فورا کہہ دیا کہ زیارت صرف نیک ایماندار اور پارساء کو ہوتی ہے۔اب وزیر بیٹھ گیا، اس نے آنکھیں بند کیں، کچھ بھی نظر نہ آیا، مگر اس نے سوچا کہ میں اگر کہوں گا کہ نظر نہیں آیا تو سب کہیں گے کہ نیک ایماندار اور پرہیزگار نہیں ہے۔اس نے کہا کہ ماشااللہ مدینہ صاف نظر آرہا ہے۔بادشاہ کو تجسس ہوا، اس نے کہا کہ میں خود بیٹھ کے دیکھوں گا۔اب بادشاہ بیٹھ گیا اور بادشاہ کو کچھ بھی نظر نہ آیا ،اب اس نے سوچا کہ وزیر تو بچ گیا، اب اگر میں کہوں گا کہ نہیں نظر آتا،تو سب سمجھیں گے بادشاہ نیک اور پرہیزگار نہیں ہے۔اس نے کہا، ماشااللہ، سبحان اللہ، مجھے مکہ اور مدینہ دونوں نظر آرہے ہیں۔اور پھر اس کو گدھا بھی 50 روپے میں خریدنا پڑا۔ بالکل کچھ یہی صورتحال یہاں کی بھی ہے۔اچھی تبدیلی صرف ان کو ہی نظر آرہی ہے ، جو پی ٹی آئی کے اندھے مقلد ہے ، اب اگر انھیں سب کچھ بگڑا بگڑا نظر آ رہا ہے ، لیکن وہ آنکھیں بند کرکے تبدیلی دیکھ رہے ہیں ، اور یہ تبدیلی اندھے مقلد سے لیکر بادشاہ سلامت کو نظر آ رہی ہے۔وہ ذہنی طور پر اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ ہمارے لیڈر میں وہ خوبی ہی نہیں، جو وہ ہمیں کھڑے ہو کر بیان فرمایا کرتے تھے!
ایک میراثی نے اپنے مرے ہوئے باپ کو دفنانے سے پہلے قبرستان میں بڑی اونچی آواز سے بڑھک لگائی کہ میرے باپ کے ذمہ کسی کاقرض ہے تو سامنے آئے تاکہ ادائیگی کی جا سکے۔ یہ سنکر چالیس پچاس بندے سامنے آگئے۔۔
میراثی بھی پورے دنوں کا تھا جب یہ دیکھا تو کہنے لگا ” بس ابا ایک دفعہ اٹھ کر گواہی دے دے تو میں قرض لوٹا دوں گا۔یہی واقعہ چند دن پہلے سپریم کورٹ میں بھی پیش آیا جب چیف جسٹس نے بڑھک لگائی اور وزیر اعظم سے پوچھا کہ ” سانحہ APS کے لواحقین نے جن چھ افراد کے نام دیئے تھے کیا ان پر FIR کٹ گئی ہے۔وزیراعظم صاحب بھی پورے دنوں کے ہیں کہنے لگے ” آپ ایک دفعہ حکم جاری کردیں ہم اس پر فوری عمل درآمد کردیں گے”۔یہ سننے کے بعد چیف جسٹس صاحب کی حالت اس میراثی والی تھی۔
نوٹ: ان چھ بندوں میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کا نام بھی شامل ہے۔
سیاستدان ،ججز، جرنیل، وزیر اور مشیروں کی خفیہ ویڈیوز کا دھندہ کافی عرصہ سے چل رھا ھے۔ یہ کرپٹ عناصر اسی لئے بلیک میل ہوتے ہیں چونکہ انکے گھناؤنے دھندے ویڈیوز کی شکل میں سیاسی مخالفین کے ہاس موجود ہیں۔ یہ کرپٹ عناصر عوام کو کیا ڈلیور کرینگے۔ اپنے کالے کرتوتوں کیوجہ سے بلیک میل ہوتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here