مشکلات میں گھبرانا نہیں!!!

0
110
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

یہ حکایت منقول ہے پہلے اسے پڑھیں اور سبق حاصل کریں ، ایک دفعہ ایک گھوڑا ایک گہرے گڑھے میں جا گرا اور زور زور سے آوازیں نکالنے لگا،گھوڑے کا مالک کسان تھا جو کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا،جب اسے کوئی ترکیب نہ سوجھی تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے۔ وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا،چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیںاور گڑھے کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا، اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں،یہ سوچ کر اس نے اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا،سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی، بجری اور کوڑا کرکٹ گڑھے میں ڈال رہے تھے ،گھوڑا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا۔ اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی،کچھ ہی لمحے بعد گھوڑا بالکل خاموش سا ہو گیاجب کسان نے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گھوڑے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے،یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا،کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گھوڑا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا،یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں آ گئے کہ ہم جس میٹریل سے اسے زندہ در گور کر رہے تھے وہی اسکی بقا کا سبب بن گیا، زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو تے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جاتا ہے ۔ ہمارے احباب جو خود کو ہمارا مالک سمجھتے ہیں ہمارے اوپر مصائب ڈال کر جب سکوت دیکھتے ہیں تو پریشان ہوتے ہیں کہ یہ چیخ چلا کیوں نہیں رہے؟ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ جس گڑھے میں وہ ہمیں دفن کر نا چاہتے ہیں اس سے انہی کے الزامات کی مٹی، انہی کے جھوٹوں کی بجری اور انہی کی لیگ پلنگ کی ریت ہمرا لیول اونچا کر دیتی ہیں اور ہم باہر نکل آتے ہیں ،وہ حسد کی بھٹی میں سڑتے ہیں۔ بھٹیاں جلتی رہیں گی ،ہم بڑھتے رہیں گے ، ہمارے سکوت کو کمزوری نہ سمجھیں ،ہاں فرق یہ ہے گھوڑا بیچارہ خود گڑھے میں گرا تھا ، ہمیں تو یہ ہمارے وہ احسان فراموش کرم فرما احباب گراتے ہیں جن کیلئے ہم صدقے وارے جاتے ہیں، ہم گھبرا ئیں گے نہیں !
ہمیں گالیاں دی جائیں
ہماری کردار کشی کی جائے
ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے
ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے
لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان ریت بجریوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں۔ اس سے تو ہمارے کرم فرما خوش ہونگے ہمیں اللہ ومحمد کو خوش کرنا ہے اور ان ظالم نام نہاد مالکوں سے کف افسوس ملوانے ہیںبلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہئے،زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں یا انہی پتھروں کو وسیلہ عروج بنائیں۔
یعنی ان کے اوپر چڑھ کر مشکلات کے گڑھے سے باہر آنے کی ترکیب کریں ،ہاتھوں میں بیلچہ لیے ہمارے خود ساختہ ارباب کذب بیانیوں کا کوڑا کرکٹ بلکہ ٹرک الزام تراشیوں کی بجری بلکہ بجلی اور بدنامیوں کی مٹی کے ڈھیر ڈالتے رہیں گے۔
خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا ، چند ہی دنوں میں ہماری 62 ویں سالگرہ آنے کو ہے ہم نے ہمیشہ دشمن کو شکست دی ہے عموما چیخے نہیں تاہم کبھی نہ کبھی داد فریاد نکل گئی۔ آج نئے عزم مصمم ارادہ کرتے ہیں کہ اب آواز نہیں نکالیں گے بلکہ اسی گرد، بجری، خاک اور بیلچوں کی مہربانی پر کھڑے ہونگے تاکہ کرم فرماں کو خفت ہو اور ہمیں عزت ملے۔ و تعز من تشاو تذل من تشا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here