آخر ظلم کب تک ہوگا؟

0
16
جاوید رانا

ہفتہ رفتہ کی سب سے بڑی خبر عالمی حوالے سے یقیناً امریکہ کے سابق صدر اور نومبر کے صدارتی انتخابات میں ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ہی قرار دی جا سکتی ہے۔ قاتلانہ حملے اور مابعد صورتحال کی تفصیلات و جزئیات نیز اقدامات سے امریکی قوم ہی نہیں دنیا بھر بخوبی آگاہ رہی کہ دنیا کی سب سے مقتدر مملکت میں اقدام قتل کا واقعہ کوئی معمولی بات نہیں بنتی لیکن امریکی ریاست، سیاسی اشرافیہ اور عوام کی جانب سے نہ کوئی انتشار پیدا ہوا نہ ہی کسی قسم کی الزام تراشی و تنقید کی صورت سامنے آئی اور نہ ہی ایشو کو اپنے مفاد کیلئے اُچھالنے کا تماشہ لگا۔ دیکھا جائے تو جمہوری عمل کے تسلسل کیلئے مثبت مظاہر اس طرح سامنے آئے جو جمہور اور آئندہ انتخابی عمل کو یقینی بنانے کی ضمانت ہوں، صدر بائیڈن کا اپنی انتخابی مہم کو معطل کرنے، وائٹ ہائوس سے قوم سے خطاب، واقعے کی مذمت اور ٹرمپ کو باالذات فون کر کے اظہار یکجہتی کرنا نیز موجودہ و سابق صدور کا بلا تخصیص جمہوریت کو نقصان پہنچانے، کسی بھی تشدد کے واقعے کیخلاف واضح عزم کا اعادہ نظر آیا۔ سچے اور بیدار و آزاد معاشروں کی خوبی یہی ہوتی ہے جو انہیں دنیا بھر میں مقتدر و ممتاز رکھتی ہے۔
اب ذرا اپنے وطن پاکستان کے سیاسی، ریاستی، حکومتی و جمہوری حالات پر نظر ڈالیں تو فرق واضح نظر آتا ہے کہ وطن عزیز کی تخلیق سے آج تک حالات کبھی بھی نہ جمہور نہ ہی جمہوریت کے حق میں رہے ہیں۔ اخلاق، اقدار اور وطنیت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر وہ اقدامات و اطوار مقدم رکھے جاتے ہیں جو اقتدار و مفادات کے تحت ہوں، نہ آئین، انصاف و انسانیت کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ملک و عوام کیلئے سوچا جاتا ہے، ہم اور ہمارا قلم تو لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں مگر اس کے اثرات بھینس کے آگے بین بجانے کے سواء کچھ نہیں!طاقتوروں کی مرضی، آئین، قانون انصاف کی دھجیاں اُڑا کر کاسۂ برداروں کو کٹھ پتلیوں کا کردار دینا اور اگر حکم عدولی ہو تو تیا پانچہ کر دینا، تشدد، قید و بند اور انسانیت کیخلاف ہر عمل وقت کا اصول بن چکا ہے۔ بھولے بھٹکے اگر انصاف کی کوئی کرن پھوٹتی ہے تو اسے دھندلانے کے لئے ہر وہ کریہہ طریقہ اپنایا جاتا ہے جو نہ انسانیت کے معیار پر پورا اُترتا ہے اور نہ اسے ملک اور عوام کے حق میں کہا جا سکتا ہو۔ گزشتہ ڈھائی برسوں سے اسٹیبلشمنٹ اور عوام کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کے درمیان جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تفصیل سے ہر پاکستانی نہ صرف واقف ہے بلکہ دلبرداشتہ نظر آتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ سب 23 کروڑ عوام کے واحد محبوب قائد اور اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ کے درمیان بوجوہ اختلاف کا شاخسانہ ہے اور عوام کا قائد کسی بھی صورت ڈکٹیٹس پر عمل کرنے پر آمادہ نہیں اور عوام کی حقیقی آزادی کیلئے صرف وہی نہیں، اس کے ساتھی، ہمنوائ، جاں نثار اور عوام جدوجہد کر رہے ہیں اور ظلم کی ہر اس راہ سے گزر رہے ہیں جس کی کوئی حد نہیں، انہیں ہر اس جمہوری حق سے محروم کیا جا رہا ہے جو طاقتوروں کے مفاد اور ایجنڈے کے برعکس ہو، تمام تر مخالفانہ ہتھکنڈوں، مظالم اور سزائوں و قید و بند کے باوجود نہ عمران خان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش آئی ہے اور نہ اس کے ساتھیوں و وفاداروں میں حتیٰ کہ خواتین اور نوجوان و بزرگ بھی چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔
اپنے حق اور ثابت قدمی پر قائم رہنے اور جھوٹے مقدمات کیخلاف ڈٹ جانے کے باعث جہاں عدالتوں سے عمران اور پی ٹی آئی رہنمائوں کو مسلسل ریلیف و رہائی مل رہی ہے وہیں مقتدرین اور ان کی کٹھ پتلی معذور حکومت خلاف آئین و قانون حرکات و اقدامات کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے مخصوص نشستوں کے حوالے سے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلے اور فارم 47 کے تناظر میں لیگی اراکین کی متوقع شکست مقتدرہ اور بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کو اپنے مقاصد کی ناکامی نظر آرہی ہے اور اس سے بچنے کیلئے نوبت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے اور عمران، سابق صدر و سابق ڈپٹی اسپیکر پر آرٹیکل 6 لگانے کی بودی کہانی گڑھی جا رہی ہے لیکن کیا اعلیٰ عدالتیں جو اس وقت اپنے ضمیر، آزادانہ کارروائیوں و فیصلوں پر کمر بستہ ہیں، اسٹیبلشمنٹ و لنگڑی لولی حکومت کی سازش کے دبائو میں آئیں گی، ہرگز نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومتی اتحادی بھی ن لیگ کے اس اقدام کو غلط، غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے بھیانک انجام کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔یہ بات طے ہے کہ تمام تر ظلم و زیادتیوں کے باوجود عمران اور پی ٹی آئی اپنے مؤقف و جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے کہ ان کی اصل طاقت پاکستان کے عوام (اندرون و بیرون ملک) ہیں اور عوام کے آگے بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی ہے۔ مقتدرہ کو بھی اپنے تئیں حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پاکستان اور عوام کے مفاد کیلئے جمہوری کردار و جمہوریت کیلئے سوچنا چاہیے کہ موجودہ ایرا گزشتہ ادوار سے بہت آگے ہے اور کوئی بھی غیر انسانی غیر جمہوری اقدام ملک ہی نہیں عالمی سطح پر بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا اور ذلت و رسوائی کا سبب ہی بنے گا۔ آرٹیکل 6 سیاستدانوں و جماعتوں ہی نہیں آئین اور وطن سے غداری و رُوگردانی پر بھی لگتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here