فیضان محّدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
12

فیضان محّدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

محترم قارئین! امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جرات، غیرت، بے باکی اور عظمت اسلام کا نام ہے۔ بس آپ کی عظمت اور شان میں یہی کہنا مناسب لگتا ہے،حسین ابن علی کی شان رفعت کوئی کیا جانے۔حسن جانے، علی جانے، نبی جانے خدا جانے، آپ کی کیفیت ابوعبداللہ لقب سبط الرّسول اور رحانة الرّسول ہے حضرت امّ لفضل بنت حارث رضی اللہ عنھا جو حضورۖ کی چچی اور حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنھا کی بیوی ہیں۔ فرماتی ہیں کہ میں نے بہت سخت عجیب خواب دیکھا۔ آپۖ نے فرمایا کہ وہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ وہ بہت ہی ڈرائونا خواب ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں تم بیان کرو، عرض کیا یارسول اللہۖ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے جسم اقدس کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: اے امّ الفضل یہ گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ یہ تو مبارک خواب ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ انشاء اللہ میری بیٹی فاطمہ کو اللہ تعالیٰ بیٹا عطا فرمائے گا جسے تم اپنی گود میں لوگی حضرت امّ الفضل فرماتی ہیں جس طرح حضورۖ نے فرمایا ویسے ہی ہوا۔ حضرت امّ الفضل رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اور میری گود میں آئے۔ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت پر حضورۖ تشریف لائے اور فرمایا: مجھے میرا بیٹا دکھائو! کیا نام رکھا ہے؟ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا !حرب نام رکھا ہے فرمایا: اس کا نام ”حسین ”ہے۔ اسی طرح امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت پر بھی ہوا۔ اور آپ کے تیسرے بھائی جن کا نام بھی حضرت علی نے حرب ہی رکھا اور حضورۖ نے بدل کر محسن رکھا پھر آپ نے فرمایا کہ میں نے ان کے نام حضرت ہارون علیہ السّلام کے بیٹوں کے نام پر رکھے ہیں۔ ان کے نام اس زبان میں شبر، شبیر اور مبشر تھے جن کا عربی میں وہی معنی ہے جو حسن، حسین، محسن کا ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر آپۖ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے اپنی گود میں لیا۔ پس نبی علیہ السّلام نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہی اور اپنا لعاب اقدس ان کے منہ میں ڈالا اور آپ کے حق میں دعا فرمائی اور آپ کا نام حسین رکھا اور حکم دیا کہ ساتویں روز ان کا عقیقہ کرو اور بالوں کو اُتار کر اس کے ہم وزن چاندی خیرات کر دو۔ چنانچہ ساتویں روز یہ عمل کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا نام بھی خود حضورۖ نے منتخب فرمایا: آپۖ نے فرمایا کہ حسن و حسین جنتی نام ہیں اور ان سے پہلے کسی کے نام نہیں رکھے گئے ہر دور کے بلند خیالوں سے پوچھ لو۔ انسانیت کے نام پر کیا کر گئے حسین رضی اللہ عنہ انسان کو بیدار تو ہو لینے دو۔ ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین رضی اللہ عنہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریمۖ فرمایا: اے میرے اللہ میں اس حسین کو محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب رکھ اور جو اس کے ساتھ محبت کرے تو بھی اس کے ساتھ محبت فرما۔ مدارج نبوت میں ہے کہ خراساں کے حاکم کو کسی نے خواب میں جنت کی سیر کرتے ہوئے دیکھا اور پوچھا کہ اللہ کو تمہاری کون سی بات پسند آئی کہ تو جنت میں ٹہل رہا ہے۔ اس نے کہا! یہ بات کہ میں نے ایک مرتبہ کربلا کے شہیدوں کو یاد کیا اور کہا کاش میں کربلا میں ہوتا اور نواسئہ رسولۖ کی کوئی خدمت کرسکتا۔ پس اللہ نے مجھے اسی بات پر بخش دیا۔ حضورۖ امام علی مقام رضی اللہ عنہ کو چومتے بھی تھے اور سونگھتے بھی تھے۔ ایک شخص نے جب حضورۖ کو دیکھا کہ آپ اپنے نواسے کو سونگھ رہے ہیں تو عرض کیا حضور! ہم تو اپنے بچوں کو چومتے ہیں اور آپ سونگھتے بھی ہیں فرمایا! یہ جنت کے پھول ہیں اور پھولوں کو سونگھ جاتا ہے۔ دنیا کے پھولوں سے تو پھر بھی کوئی ناگوار بوآسکتی ہے۔ مگر جنت کے پھولوں میں یہ تصور بھی کہاں؟ لہذا کوئی یہ نہ سمجھے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے منہ سے کوئی ناگوارا بو آتی ہوگی اسی لئے حضور علیہ السّلام چومنے کے بجائے سونگھتے ہوں گے۔ حضرت داتا علی گنج بخش ہجویری رضی اللہ عنہ نے کشف المحجوب میں لکھا ہے کہ عید کے دن امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضورۖ کی بارگاہ میں عرض کیا۔ تمام بچوں کے پاس سواریاں ہیں اور میرے اس سواری نہیں ہے۔ حضورۖ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کا دل دُکھانا مناسب نہ سمجھا۔ اور کہنیوں اور گھٹنوں کے بل زمین پر تشریف فرما ہو کر امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی پشت پر بٹھا لیا۔ انہوں نے عرض کیا دوسرے بچوں کی تو لگام بھی ہے یعنی سواری کی لگام ہے۔ حضورۖ نے سرخ رنگ کا دھاگہ منہ میں ڈال کر اس کے دونوں سرے امام حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑا دیئے کہ اس سے لگام کا کام لے لو۔ پھر امام حسین رضی اللہ عنہ جس طرف سے دھاگہ کھینچتے حضورۖ اُدھر ہی مڑ جاتے ہیں۔ جس سے داتا صاحب رضی اللہ عنہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں۔ کہ حضورۖ کی مرضی دہی ہے جو حسین کی مرضی ہے اس طرح ایک مرتبہ نماز کے دوران امام حسین رضی اللہ عنہ حضور علیہ السّلام کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے اور حضور علیہ السّلام نے اس وقت سجدہ سے سر اٹھایا جب امام خود اترے۔ گویا خدا نے فرما دیا کہ محبوب آج تک تو میری رضا کے لئے سجدوں کو لمبا کیا ہے اور آج اپنے نواسے کی رضا کی خاطر سجدے کو لمبا کردیا۔شہسوار کربلا کی شہ سواری کو سلام۔ نیزے پر قرآن پڑھنے والے قاری کو سلام اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند کرے اور آپ کے فیضان جرات وبہادری سے ہم سب کو وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here