سلیکٹڈ انصاف ایک حقیقت!!!

0
264
شمیم سیّد
شمیم سیّد

نظریاتی اور فکری اعتبار سے بے شک قانون کا مقصد عدل و انصاف کا قیام ہی ہوتا ہے مگر عملا ایسا نہیں ہوتا۔بلکہ قانون کے ذریعے ایسے افراد کو ختم کیا جاتا ہے جو (Status quo)کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان اور عوام یوں تو ہمیشہ سے ہی ظالم و جابر حکمرانوں عالمی سامراج کے گماشتوں دین فروشوں جاگیرداروں اور سرداروں کے قبضے میں رہے ہیں مگر اب تو یہ بڑے ہی ظالم قسم کے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔جنہیں نہ تو ملک کی پرواہ ہے اور نہ ہی عوام کی۔ذاتی مفادات ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے اور یہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں خواہ ملک و قوم کے خون کا آخری قطرہ ہی کیوں نہ نچوڑنا پڑے۔قومی اداروں میں ان کے سرپرست بھی موجود ہیں سہولت کار بھی اور حصہ دار بھی۔ ٹالسٹائی نے Re-Surrectionمیں پاکستان جیسے معاشروں کے نظام عدل و انصاف کے بارے میں لکھا تھا کہ قانون کا مقصد عدل و انصاف قائم کرنا نہیں بلکہ طبقاتی مفاد کا تحفظ ہے۔حکمران طبقات صورت حال کو جوں کا توں رکھنے اور اپنے مفادات کے تابع رکھنے کے لئے قانون کو اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔انہیں سیاسی مجرم قرار دے کر اسی نظام عدل و انصاف سے سزائیں دی جاتی ہیں۔ پاکستان میں Selectiveانصاف ایک حقیقت بن گیا ہے۔ جاگیردارانہ طبقاتی معاشرے کا عدالتی نظام قوانین کے نہیں ذاتی پسند و ناپسند یا مخصوص مفادات کے تابع ہوتا ہے۔سیاسی چور ،ڈاکو، لٹیرے ، مجرم جب چاہیں مختلف حیلے بہانوں سے ملک سے باہر چلے جائیں اور جب چاہیں واپس آ جائیں ضمانتیں کروائیں اور مقدمات سے بری ہو جائیں مقتولین کے وارث ایف آئی آر درج نہ کروا سکیں جبکہ سیاسی مخالفین کے خلاف ایک ایک دن میں پچاس پچاس ایف آئی آرز درج کروا دی جائیں۔یہ وہ مظاہر ہین جن کی وجہ سے پاکستان کی عدالتوں کی عالمی سطح پرریٹنگ 130نمبر پر ہے۔یہ الگ بات کہ ہمارے نظام عدل نے جسٹس کیانی جسٹس کارنیلئس اور جسٹس صمدانی جیسے ججز بھی پیدا کئے ہیں جو کہ پاکستان کے عدالتی نظام کے روشن ستارے ہیں۔حضرت آدم اور اماں حواکا قصہ قانونی نظام کے کچھ بنیادی عناصر کی نمائندگی کرتا ہے۔جب حضرت آدم شجر ممنوعہ کے حوالے سے حکم عدولی کرتے ہیں اور ان سے سوال کیا جاتا ہے یعنی فرد جرم عائد ہوتی ہے تو وہ اپنے دفاع میں اس عمل کا بوجھ حضرت حوا پر ڈالتے ہیں اور اماں حوا اس کا ذمہ دار اس سانپ یا شیطان کو قرار دیتی ہیں جس نے انہیں ورغلایا۔یہ واقعہ بنیادی قانونی عمل کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔یعنی ملزم کو عدات میں طلب کیا جائے اور اپنے آپ کا دفاع کرنے کی اجازت دی جائے اور اس کے بعد سزا سنائی جائے۔یعنی کوئی بھی شخص کسی بھی خفیہ قانونی طریقہ کار کے تابع نہیں ہو سکتا نہ ہی کسی کی ذاتی خواہش کی بنیاد پر کسی کو اغوا کیا جا سکتا ہے۔نہ ہی قتل اور نہ ہی ننگا کر کے تشدد۔دنیا بھر میں رائج قوانین عدل و انصاف کی بنیادی روح رب العزت کے سامنے حضرت آدم و حوا کے اس واقعہ کے مطابق ہے۔ پاکستان میں شاید قرون وسطی کا وہ نظام عدل نافذ ہے جس میں انصاف کا نظم و نسق نجی ہاتھوں میں تھا۔میں نے اندرون سندھ جاگیرداروں کی ذاتی جیلیں دیکھیں ہیں۔قرون وسطی میں نظام انصاف پرانے جرمن نظریات اور رومن قانون کے مطابق ترتیب دیا گیا تھا۔جرم کی سنگینی کے پیش نظر نظام انصاف کو تین عدالتوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔شاہی عدالت چرچ کی عدالت اور Manor Courtsجو کہ نچلی درجے کی عدالت تھی اس کا انچارج اس علاقے کا Manor ہوتا تھا۔1300 سے 1700عیسوی تک کے قلمبند زمانے کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان عدالتوں نے سماج میں جاگیرداروں کی طاقت کو مسلط کیا ہوا تھا یہاں تک کہ آپ اگر غلام ہیں اور آپ نے مالک کی زمین پر کام کر کے کمائی گئی دولت کو خرچ کر کے شادی کی ہے تو آپ کو اس شادی کی ادائیگی کرنا پڑتی تھی۔بنیادی طور پر یہ عدالتیں ایسا استحصالی آلہ تھیں جن کے ذریعے جاگیردار اپنے کسانوں پر جنہیں Tenantsکرایہ دار کہا جاتا تھا اپنا جبر قائم رکھتی تھیں۔قرون وسطی اور ابتدائی جدید انگریزی دیہاتوں کے لارڈ اور Tenantsیعنی کرائے دار کسان کاشت کار کے درمیان آقا اور غلام کا رشتہ تھا۔بعض اوقات کسان کے پاس اپنے کنبے کی کفالت اور آئندہ فصل کے لئے بیج رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی تھی اور یہ Manor Courtsان لارڈ کے مفادات کا تحفظ کرتی تھیں۔جوں جوں زمانہ آگے بڑہا۔بادشاہت چرچ اور Manorکے اختیارات اور قوانین اور ان کے آپس میں اختیارات کے ٹکرائو پر تعلیمی بحثیں ہوتی گئیں۔ زمانہ Canonقانون رومن قانون اور جاگیردارانہ قانون کی منزلیں طے کرتا ہوا کامن لا سول لا سے ہوتا ہوا جدید قوانین تک آن پہنچا۔بادشاہت مذہبی پاپائیت اور جاگیردارانہ نظام کے قبضے سے ریاست بظاہر آزاد ہو کر سرمایہ داری اور پھر کارپوریٹ کیپیٹل ازم کے دور میں داخل ہو گئی ذرائع پیداوار اور آلہ پیداوار بدل گئے مگر اس کے ساتھ ساتھ ذرائع استحصال بھی بدل گئے اور طریقہ غلامی و استحصال بھی بدل گیا۔معاشرہ آج بھی ظالم اور مظلوم طبقات کے درمیان منقسم ہے اور نظام عدل قرون وسطیٰ کے دور کی طرح حکمران طبقات کے مفادات کا محافظ ہے بلکہ دنیا بھر کے ظالم طبقات کے سرغنہ امریکی سامراج کے مفادات کا ضامن بھی ہے اس کی تازہ مثال Jucian Oaul Assangeکی ہے جس نے 2010 میں امریکی جنگی جرائم کو بے نقاب کیا اور وکی لیکس کے ذریعے وہ جھوٹ بے نقاب کئے جن کو بنیاد بنا کر امریکہ نے عراق شام لیبیا اور یمن پر جنگیں مسلط کیں۔افغانستان میں بیس سالہ تباہی اور وینزویلا جیسی منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کو بے نقاب کیا۔وہ برطانیہ جیل میں ہے اور امریکہ قرون وسطی کے بادشاہوں کی طرح انتقام لینے کے لئے اس کی Extraditionحوالگی چاہتا ہے۔اسی طرح Guantanamo bayکی جیل قائم کی گئی جو اپنے مخالفین کو بغیر کسی عدالت میں پیش کئے تشدد اور غیر انسانی سلوک کے لئے تھی۔اسی طرح 2002 میں انٹرنیشنل کرائم کورٹ قائم کی گئی جس کا مقصد اپنے سیاسی اور فوجی مخالفین کو کنٹرول کرنا اور سزائیں دینا ہے۔حالانکہ آئی سی سی کے پراسیکیوٹرز اور ججز اس بات کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ یہ ایک غیر جانبدار عدالتی ادارہ ہے مگر آئی سی سی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور کہا جا رہا ہے یہ ایک طرح کا عدالتی امپیرلزم ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ، چین ،روس اور بھارت جیسے ممالک اس کے ممبر ہی نہیں ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here