افغانستان اور پاکستان کے بے خبر حکمران!!!

0
91
اوریا مقبول جان

گیارہ ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقعے کے بعد، دہشت گردی کے خلاف اعلانِ جنگ کی گھن گرج کے سامنے جب پرویز مشرف نے بزدلانہ طور پر گھٹنے ٹیک لئے اور مسلمان افغان بھائیوں کے مقابلے میں امریکہ کا مکمل طور پر ساتھ دینے کا اعلان کیاتو اپنے اس اقدام کے حق میں وہ بے شمار دلائل دیا کرتا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا، کہ اس نے یہ قدم پاکستان کے بہترین مفاد میں اٹھایا ہے۔ اس کے دیگر بے سروپا اور لایعنی دلائل میں سے ایک یہ دلیل بھی تھی کہ امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہونے کے بعد اگر قابض ہو گیا تو پھر وہ وہاں جو بھی حکومت بنائے گا، پاکستان کی مرضی سے بنائی جائے گی۔ پاکستان میں موجود عالمی شہرت یافتہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی معاونت اور اعلی تعلیم یافتہ وزیروں کی فوجِ ظفر موج کے باوجود بھی اسے یا تو بالکل اس حقیقت کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ امریکہ تو افغانستان میں شمالی اتحاد کے کندھوں پر سوار ہو کر داخل ہو رہا ہے اور یہ شمالی اتحاد کئی سالوں سے بھارت دوست اور پاکستان کا دشمن افغان گروہ ہے، یا پھر مشرف سب کچھ جانتے ہوئے بھی عوام کے سامنے جھوٹ بول رہا تھا۔ اس جھوٹ کو وہ امریکی ضمانت کے ساتھ نتھی کرتا تھا، حالانکہ امریکہ کے تمام حکمران، دانشور اور صحافی آج تک کہتے چلے آ رہے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان کو کوئی ایسی ضمانت نہیں دی تھی، بلکہ پاکستان نے ایسی ضمانت مانگی ہی نہیں تھی۔ یہی بے خبری اور جہالت تھی جس کا خمیازہ پاکستان کو پورے بیس سال بھگتنا پڑا۔ بھارت نے شمالی اتحاد سے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے امریکی قبضے کے بعد بننے والی افغان حکومت میں اپنا اثرونفوذ آہستہ آہستہ مستحکم کر لیا۔ امریکی سرپرستی اور شمالی اتحاد کی بھارت دوستی نے پاکستان کے خلاف افغانستان کی پوری سرزمین کو ایک ٹریننگ کیمپ میں بدل کر رکھ دیا۔ وہ محضر نامہ (Dossior) جو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ میں جمع کروایا تھا، اس کے مطابق افغانستان میں بھارت کے چھیاسٹھ (66) ٹریننگ کیمپ چل رہے تھے، جہاں وہ پاکستان میں تخریب کاری کرنیوالے بلوچ اور پشتون دہشت گردوں کو ٹریننگ دیتا تھا۔ اس کام کیلئے امریکی پشت پناہی سے قائم افغان حکومت نے بھارت کو جابجا کونسل خانے قائم کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ یوں تو دنیا بھر میں امریکہ ایران سے اپنی دشمنی جتاتے ہوئے تھکتا نہیں تھا، لیکن افغانستان کو پاکستان سے جغرافیائی طور پر کاٹنے اور بھارت کے اثر و نفوذ کو قائم رکھنے کیلئے امریکہ نے شمالی اتحاد کی ایران دوستی کو خوب استعمال کیا اور عملا افغانستان کو براستہ چاہ بہار پاکستان سے جغرافیائی طور پر منقطع کر دیا۔ چاہ بہار کی بندرگاہ سے لے کر افغانستان میں اندرونی سڑکوں کے جال بچھانے تک سب کی تعمیر بھارتی سرمائے سے ہوئی۔ ایک طرف دنیا بھر کی چالیں پاکستان کے خلاف چل رہی تھیں، دوسری طرف خود پاکستان میں پرویز مشرف کی مغرب پرستی و روشن خیالی بھی، اس ملک کو افغان مخالف سرزمین بنا چکی تھی۔ لیکن میرے اللہ کی تقدیر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ اس نے پامردی مومن اور ابلیس کے سامانِ حرب کے درمیان مقابلے میں پامردی مومن کو جیت سے ہمکنار کر کے ثابت کر دیا کہ وہی اس کائنات کا تنہا مالک و مختار اور سپر پاور ہے۔ انسانی تاریخ کے اس عظیم معجزے کو برپا ہوئے آج تین ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں اور طالبان بظاہر عظیم اور پر شکوہ عالمی اتحاد کو شکست دے کر کابل پر حکمران بھی ہو چکے ہیں۔ یوں تو اس معرکہ عظیم میں فتح کی نوید 29 فروری 2020 کو ہی سنائی جا چکی تھی جب طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اور عالمی اتحاد کی افواج کا افغانستان سے انخلا طے ہو گیا تھا۔ آج اس واقعے کو بھی بیتے اکیس ماہ ہو چکے ہیں۔ لیکن پاکستان کی حکومت اور اس کے حکمرانوں نے اس فتح کے فوائد کو پاکستان کیلئے کارآمد بنانے کیلئے کیا کچھ کیا، کوئی نہیں جانتا، لگتا ہے اپنی اس بے خبری اور بے توجہی کی وجہ سے شاید اس دفعہ بھی ہم افغان حکومت سے دوستی میں ناکام و نامراد ہی نہ ٹھہر جائیں۔ سب سے حیران کن بات اس وقت ہوئی جب افغان وزیر خارجہ کے ساتھ مذاکرات کے درمیان پاکستان میں یہ مسئلہ زیرِ غور آیا کہ افغانستان کو بھارت سے گندم کیسے پہنچائی جائے۔ بھارت وہ خطہ ہے جسے 1947 تک پاکستان کا موجودہ پنجاب گندم مہیا کیا کرتا تھا۔ افغانستان میں امریکہ کے آنے سے پہلے تک افغانستان کا بھی گندم کے سلسلے میں سارے کا سارا انحصار پاکستان پر ہی ہوتا تھا۔ چمن اور طورخم کے شہروں میں ڈپٹی کمشنر باقاعدہ فوڈ پرمٹ جاری کرتے تھے، جن کا جائز اور ناجائز استعمال کرتے ہوئے مقامی افراد گندم افغانستان سمگل کیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ تقریبا ساٹھ سال تک جاری رہا اور پاکستان کی گندم سے افغان بھائی بھی مسلسل مستفید ہوتے رہے اور پاکستان میں بھی کبھی گندم کی قلت پیدا نہ ہوئی۔ لیکن پاکستان کی خصوصی مہربانی سے امریکہ کے زیرِسایہ بننے والی افغان حکومت نے 29 اکتوبر 2017 کو یہ تاریخ بدل کر رکھ دی اور بھارت کی بندر گاہ کانڈلہ سے 15 ہزار ٹن گندم سے لدے ہوئے جہاز ایرانی بندرگاہ چاہ بہار پہنچے، وہاں سے انہیں ٹرکوں پر لاد کر ایران اور افغانستان کے سرحدی شہر زرنج پہنچایا گیا، جہاں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی، جس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان میں بھارتی سفیر من پریت ووہرا نے کہا کہ ہم نے آج تاریخی راستے تبدیل کر دیئے ہیں اور اب بھارت تک پہنچنے کیلئے درہ خیبر یا درہ بولان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ یہ صرف پندرہ ہزار ٹن گندم کی پہلی کھیپ تھی جو گندم سے لدے ہوئے جہازوں کے قافلوں میں سے ایک قافلہ تھا۔ بھارت نے گیارہ لاکھ ٹن گندم اس سال افغانستان کو فراہم کی۔ یہ واقعہ اکیلے بھارت اور افغان حکومتوں کے درمیان فیصلہ سے نہیں ہوا، بلکہ اس گندم کے جہازوں کے بھارت سے روانہ ہونے سے چند دن پہلے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے نیو دِلی جا کر اس کارِ خیر میں اپنا حصہ بھی ڈالا تھا۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اس بڑی تقریب میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا۔ ہم اس راستے سے گندم اس لئے لے کر آئے ہیں کیونکہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو سمندر کیساتھ منسلک نہیں (Land Locked) ہے اور آپ کا مشرقی ہمسایہ یعنی پاکستان آپ پر بے جا پابندیاں عائد کرتا رہتا ہے، اس لئے ہمیں یہ طویل راستہ چننا پڑا۔ افغانستان کو بھارت نے یہ گندم مفت نہیں دی تھی بلکہ اس کی قیمت وصول کی تھی۔ بھارت نے یہ فیصلہ اس سال کیا تھا جب اس نے خود اپنی ضروریات کیلئے 2017 میں ایک کروڑ تیس لاکھ ٹن گندم درآمد کی تھی۔ بھارت ہمیشہ اپنی ضروریات کیلئے باہر سے گندم درآمد کرتا ہے۔ اس کا مطلب ایک ہی ہے کہ بھارت نے افغانستان سے دوستی گانٹھنے کیلئے اپنی ضروریات سے گیارہ لاکھ ٹن گندم زیادہ درآمد کی اور افغانستان پہنچائی۔ بھارت نے یہ سب کچھ صرف اور صرف پاکستان دشمنی میں کیا، ورنہ اس کا افغانستان اور وہاں بسنے والے مسلمانوں سے کیا مفاد۔ لیکن میرے ملک کا حکمران جو پہلے ہی بے خبر تھا اور آج بھی لا تعلق ہے وہ کسی صورت افغانستان کو اس طرح گندم فراہم کر کے ان کے دلوں میں گھر کرنے کی طرف مائل نہیں ہو پا رہا۔ اگر آج پاکستان ایسا کرتا ہے تو اپنے افغان بھائیوں کو کرائے کی مد میں بے تحاشہ بچت ہو سکتی ہے اور انہیں گندم انتہائی سستی مل سکتی ہے۔ ہم انہیں بھارت کی طرح عالمی مارکیٹ سے گندم خرید کر بھی بیچ سکتے ہیں۔ یہ خیر سگالی کا بہت بڑا قدم ہو گا، لیکن شاید ہم اس دن کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب پاکستان طورخم اور چمن بارڈر سے تجارت بند کر دے اور بھارت ایک بار پھر چاہ بہار کے راستے افغانستان تک رسائی حاصل کر لے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here