ترکی اور بنگلہ دیش میں جنرلوں اور ججوں کو سزائیں!!!

0
611
رمضان رانا
رمضان رانا

ترکی میں آئے دن سول حکومتوں کے تختے اُلٹے پلٹے جانے تھے جن پر آخر کار ترک عوام نے صدر اردگان کی سربراہی میں قابو پا لیا جس میں ترک جنرل جج اور جرنلسٹ ملوث پائے جاتے تھے جو مختلف سازشوں کے تحت ہر سول حکومت کا تختہ الٹ کر فوجی حکومت قائم کرنے میں پیش پیش رہتے تھے کہ جب اس مرتبہ جولائی 2016ء کو صدر اردگان کے خلاف فوجی بغاوت برپا ہوئی تو عوام نے ڈنڈوں اور سوٹوں کے ساتھ فوج کے ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور جنگی ہوائی جہازوں کا مقابلہ کرتے ہوئے فوجی بغاوت کو کچل دیا جو موجودہ صدی کا بہت بڑا کارنامہ تھا جس کو مغربی منافقانہ حکمرانوں نے متنازعہ بنانے کی کوشش کی جو مسلسل فوجی حکمرانوں کی سیکولرز کے نام پر حمایت کرتے چلے آرہے تھے۔ چنانچہ اس بغاوت میں ساڑھے پانچ ہزار فوجی افسران ججوں اور جرنلسٹوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا ہے جس سے اب ترکی میں آئے دن کی فوجی بغاوتوں کا خاتمہ ہوا ہے۔اسی طرح پاکستان کی کوکھ سے جنم لینے والے ملک بنگلہ دیش میں بھی فوجی بغاوتوں کا سلسلہ چل نکلا جس میں بنگالی قوم کے باپو اور ہردلعزیز وزیراعظم شیخ مجیب اور ان کے تمام خاندان کو مار دیا گیا جس کے خلاف مجیب خاندان کی بچی ہوئی خاتون جو اس وقت اٹلی میں موجود تھی انہوں نے مسلسل اپنی جدوجہد سے جنرلوں کی سازشوں پر قابو پا لیا جنرل ارشاد وغیرہ کو جیل میں ڈالا گیا۔کئی فوجی افسران کو سزائے موت دی گئی ہے کہ آج بنگلہ دیش میں فوجی بغاوت کے امکانات ختم ہوچکے ہیں۔اب بنگلہ دیش کی فوج سول حکومت کے ماتحت کام کر رہی ہے۔مزید برآں حال ہی میں بنگلہ دیش کے چیف جسٹس سریندر کمار سنہا کو کرپشن اور منی لانڈرنگ میں گیارہ سال کی سزا دی گئی ہے جو برصغیر کے خطے میں یہ پہلی سزا ہے جو کسی بڑے عہدیدار جج کو ملی ہے۔جس سے لگتا ہے کہ ترکی اور بنگلہ دیش میں قانون کی حکمرانی قائم ہوچکی ہے۔جس کے سامنے جنرل اور جج صاحبان سرنگوں میں برعکس پاکستان میں جنرلوں نے چار مرتبہ ملکی منتخب سول حکومت کاخاتمہ کیا۔منتخب پارلیمنٹوں کو برطرف کیا چار مرتبہ مارشلاء نافذ کئے۔پانچ مرتبہ ملکی آئین پامال اور معطل اور منسوخ کیا۔جن جن کے ساتھ جج اور جرنلسٹ بھی شریک تھے۔ججوں نے ہر فوجی بغاوت کو عدالتی پروٹیکشن دی مارشلائوں کو جائز قرار دیا۔ملکی آئین کے مدمقابل فوجی قانون کے تحت حلف اٹھائے گئے پاکستان میں نظریہ ضرورت کے تحت غیر قانونی اور غیر آئینی حکمرانوں کو بچایا گیا۔جن کا محاسبہ کرنا ناممکن بن چکا ہے۔جو آج بھی سازشوں میں دھن دھناتے نظر آتے ہیں۔جو انتخابات میں ڈاکہ رانی کرکے عمران خان جیسے ناکارہ، نااہل اور ناکام ترین شخص کو اقتدار پر بٹھا کر ملک کی تباہ برباد کردیتے ہیں کہ آج پاکستان دنیا بھر میں سیاسی، معاشی، اور سماجی طور پر رسوا اور تنہاہیوں کا شکار ہوچکا ہے۔جس کے جنرل اور جج صاحبان پاکستان کے آئین اور قانون سے بالاتر تصور کرتے ہیں جن کے خلاف کسی قسم کا مقدمہ قائم نہیں ہوسکتا ہے۔نااہل سابقہ جنرلوں اور ججوں سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ہر ادارے اور محکمے میں سابقہ جنرل اور جج کو نامزد کیا ہوا ہے۔ جس میں نیب کا چیئرمین سابقہ جج جاوید اقبال کو آج تک ان کی بدکرداریوں اور بداعمالیوں کے باوجود عدالت میں طلب نہیں کیا گیا ہے جبکہ ملک کے منتخب وزیراعظموں اور صدور کو عدالت میں طلب کرکے رسوا کیا جاتا ہے۔ملک کے پارلیمنٹرین وزیروں اور مشیروں کے خلاف مقدمات قائم ہوسکتے ہیں۔مگر جنرلوں اور ججوں کے خلاف کوئی بھی کرپشن بالاقانونیت کا مقدمہ قائم کرنا ناممکن بن چکا ہے۔اگر کوئی جج ہمت کرکے جنرلوں کو عدالت میں طلب کرتا ہے۔یا پھر کراچی جیسے بدامنی کیسوں میں رینجر کے جنرل سے پوچھ گچھ کرتا یا لاپتہ افراد کے سلسلے میں منانی کورکمانڈر سے پوچھا جاتا ہے تو ان کا حشر چیف جسٹس افتخار چودھری جیسا کیا جاتا ہے۔مگر جسٹس فائز قاضی جیسا جج ساٹھ سے زیادہ کوئٹہ سانحہ میں شہید ہونے والے اہم ترین وکیلوں کی رپورٹ میں ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے ثبوت پیش کرتا ہے۔یا پھر فیض آباد سازشی دھرنے کے خلاف عدالتی فیصلہ دیتا ہے تو ناصرف عدالتی حکم عدولی ہوتی ہے بلکہ جسٹس قاضی کو کئی سالوں تک رسوا کیا جاتا ہے۔
اگر جسٹس شوکت صدیقی جنرلوں کے من پسند فیصلوں سے انکار کرتا ہے تو انہیں ان کے ججوں سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔اگر پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ مرحوم ایک آئین شکن اور باغی جنرل مشرف کے خلاف مقدمہ غداری میں سزائے موت کا فیصلہ سناتا ہے تو اس فیصلے پر عملدرآمدگی کی بجائے اس جج مار دیا جاتا ہے۔اگر کوئی جج ارشد ملک اقرار جرم کرتا ہے کہ میں نے نوازشریف کو دبائو میں آکر سزا دی ہے تو اسے بھی ایک دن کرونا کے ہاتھوں مروا دیا جاتا ہے۔لہٰذا جنرلوں اور ججوں کی سازشوں کا سلسلہ ہو رہا ہے۔جس کی وجہ سے آج پاکستان ایک بنانا اسٹیٹ بن چکی ہے جو پوری دنیا میں رسوا ہو رہی ہے جس کی کوئی خارجہ اور داخلہ پالیسی نہیں ہے۔ہر آنے جانے والا غیر ملکی وزیر اور مشیر سب سے پہلے جنرلوں سے ملاقات کرتا ہے پھر وہ سول حکومت کے اہلکاروں اور عہدیداروں کو موقع دیتا ہے۔
تاہم پاکستان میں جنرل اور جج صاحبان قانون سے بالاتر ہوچکے ہیںجو ملک کے مختلف اہم محکموں اور اداروں نیب، الیکشن کمیشن، پی آئی اے ، سٹیل ملز، واپڈا، اور دیگر اداروں میں نامزد ہیں جو اپنی بھاری بھر کم پنشنوں اور مراعات کے ساتھ ساتھ دوگنا چار گنا تنخواہیں وصول کر رہے ہیںجن کو اگر کہا جائے کہ زندہ ہاتھی ایک لاکھ کا اور مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا تو بجا نہیں ہوگا جس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی ہے کہ ریٹائرڈ جنرلوں اور ججوں کو اہم ترین نوکریاں میسر ہیں جس سے پاکستان کے گریجوایٹس کا مسلسل استحصال ہو رہا ہے جو تنگ آکر ترک ملک پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here