قارئین وطن! بڑے زمانے کے بعد میں نے اردو کا اخبار لگوایا ہے اب سوال یہ پیدا ہوا کہ کون سا اخبار لگوایا جائے کہ صحافتی منڈی اخباروں سے بھری پڑی ہے روز نامے اور ڈمی کوئی سینکڑوں اخبار چھپتے ہیں ۔ میری آنکھ کے شعور نے جب اپنے گھر میں اخبار آتے دیکھا تو وہ نوائے وقت تھا اور ٹین ایج سے لے کر اپنے شباب تک اس کو پڑھا تا وقت کہ جب میں مجید نظامی مرحوم ان کی بیگم صاحبہ اور بیٹی رمیضہ کو بوسٹن ان کی بیگم کی بھانجی کے گھر چھوڑنے جا رہا تھا میں یہ بات پہلے بھی لکھ اور بتا چکا ہوں کہ راستے میں ہم دونوں سیاست پر گفتگو کر رہے تھے کہ اس دوران نواز شریف کا ذکر آگیا اور مرحوم خود ہی کہنے لگے کہ نواز دس منٹ سے زیادہ گفتگو نہیں کر سکتا اور اس کے بعد اول فول بکنا شروع ہو جاتا ہے اس پر میں نے کہا کہ انکل آپ پھر کیوں مسلم لیگ کے صدر کے لئے اس کو پرموٹ کر رہے ہیں یاد رہے کہ اس وقت محمد خان جونیجو مسلم لیگ کے صدر تھے او ہو نظامی صاحب کا جواب تھا کہ اس کا چہرہ بڑا معصوم ہے او ہو اس جواب نے تو مجھے چکرا دیا کہ جس اخبار کو پڑھ کر جوان ہوئے اور نظریہ پاکستان اور اس کی سوچ کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھا دل تو میرا نظامی صاحب کا جواب سن کر چاہا کہ گاڑی کو دریاے ہڈسن میں ڈبو دوں کہ یہ ایک معتبر سوچ ہے لعنت ہے اور پھر میں نے نوائے وقت پڑھنا چھوڑ دیا ۔ بلکہ اب تو وی لاگ اور سوشل میڈیا کا دور ہے اخبار کوئی پڑھتا بھی نہیں ہے لیکن سارا دن گھر میں رہتے رہتے اور یوٹیوب دیکھ دیکھ کر اکتا گیا ایک اخبار چنا جائے اور میرا انتخاب روز نامہ دنیا کو چنا اخبار کو پڑھتے وقت ایڈیٹورئیل صفحہ میرا پسندیدہ ہے لیکن ہائے دنیا کا ایڈیٹورئیل صفہ مفلوج اور بیمار سوچ کے حامل لکھنے والے اشخاص سے بھرا پڑا ہے سابق سیکٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا مضمون پڑھا بغض عمران سے بھرا پڑا تھا میں نے سوچا کہ کوئی دانشور ہوگا لیکن اس کی دانش کا لیول جلال پور جٹہ کے کسی مراسی کا گانا لگا سارے کا سارا اخبار اور مین اسٹریم ٹی وی چینل کے اینکروں کا بھی وہی حال ہے نواز اور مریم کے لفافے قصیدے کہ اخبار خریدنے اور ٹی وی دیکھنے کو دل نہیں کرتا جب ان نام نہاد دانشوروں کا یہ عالم ہے تو ہم چھوٹے لوگوں کا کیا حال ہو گا ۔
قاضی فائیز عیسی اور اس کا فیصلہ بھی اسی طرز کا تھا۔
قاضی کا فیصلہ!
قارئین وطن! پوری دنیا نے قاضی اور اس کے ساتھیوں کا عمران خان اور اس کی جماعت تحریک انصاف کے خلاف سوتیلی ماں کا سلوک دیکھ لیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کے خاکی باپ بھی سوتیلا ہے ان دونوں نے مل کر ایک غنیم نواز شریف کو مسند اقتدار پر بھٹانے کے لئے کروڑ پاکستانیوں کا خون کیا ہے آج عمران خان کے ساتھ وہی کام ہوا ہے جو جرنل ایوب خان نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کیا اس وقت ایوب کا ظلم زیادہ نمایا اس وجہ سے نہیں ہوا کہ ایک ہی ٹی وی چینل ہوا کرتا تھا جو ہر وقت کسی کیپٹن یا کرنل کی نگرانی میں ہوتا تھا اور سوشل میڈیا کا نام و نشان نہیں تھا ۔ اس کے زمانے کے قاضی ایسے ہی فیصلے دیتے تھے جیسے آج قاضی نے دیا ہے یا دلوایا گیا ہے ۔ خیر یہ سلسلہ بہت پرانا ہے جسٹس شیخ منیر سے شروع ہوا اور قاضی فائیز عیسی تک پہنچا ہے اس دوران کے الیکشن کے خوف نے ملک دو لخت کیا اور کے الیکشن کے خوف نے موجودہ پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت تحریک انصاف کا گلا گھونٹ دیا ہے ۔
الیکشن/سلیکشن
قارئین وطن!اب تو اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت زمینی طاقتوں میں ایک طاقت امریکہ بھی ہے جس کا رعب ہمارے سب سے بڑے ادارے سلوٹ پر بھی ہے اور اس کی انگلی سلوٹ والوں کی سوٹی سے بھاری ہے ان کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی انگلی کے اشاروں سے سب کام لے لیتے ہیں بد قسمتی یا خوش قسمتی کہیے کہ ہمارا جغرافیہ اتنا دلکش ہے کہ ان کی نظریں ہمارے جغرافیہ کے ایک ایک کونے پر جمی رہتی ہے اور یہاں سانس بھی ان کی مرضی سے لیا جاتا ہے بظاہر وہ اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپئن کہتا ہے صرف اپنی حدود تک لیکن اپنی حدود سے باہر قرعہ عرض پر حکمرانی کرنی ہوتی ہے اس کے لئے ایک تو بڑے ادارے کا بڑا افسر ان کی مرضی کا اور دوسرا شیروانی میں غلام ابن غلام چاہئے ہوتا ہے اس لئے ان کو absolute not کہاں پسند ہو گا جمہور حکم دیتا ہے سوٹی کو اور سوٹی حکم دیتا ہے قاضی کو کے اس کو اور پارٹی کو کرش کردو تب تک کے لئے بونا لاڈلا ہمارا کام کرتا رہے یہ ہے ساری کہانی الیکشن اور سلیکشن کی یہ ساری کہانی ادارے کے نام پر لونڈے لپاڑے منصور علی خان کو انٹرویوں دینے والے کی زبانی ہے قائد اعظم محمد علی جناح عالم ارواح میں بیٹھے گنگناہ رہے ہیں اور رو رہے ہیں !
اگر یہ جانتے چن چن کر توڑے جائیں گے
تو گل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے
علامہ نے سہی کہا ہے کہ ہم گفتار کے غازی ہیں کردار کے نہیں اٹھو اور پاکستان کی سوچو کل ہماری نسلوں نے بھی جوان ہونا ہے !
٭٭٭