نظر ثانی درخواست منظور، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم

0
91

اسلام آباد(پاکستان نیوز) سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جس کے بعد پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی اور پارلیمانی جماعتوں کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 77 اضافی نشستیں مل گئیں۔فیصلہ سات ججز نے اکثریت کے ساتھ سنایا جس میں آئینی بنچ کے سربراہ جسٹس امین الدین، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عامر فاروق، جسٹس ہاشم کاکڑ ،جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے 39 نشستوں کی حد تک اپنی رائے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے مشروط نظرثانی درخواستیں منظور کیں۔جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر نے لکھا کہ نشستوں کی حد تک معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہیں، الیکشن کمیشن تمام متعلقہ ریکارڈ دیکھ کر طے کرے کس کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔فیصلے میں بتایا گیا کہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بنچ سے علیحدگی اختیار کی، ابتدا میں 13رکنی آئینی بنچ تشکیل دیا گیا تھا، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے ابتدائی سماعت میں ہی ریویو درخواستیں خارج کر دی تھیں۔قبل ازیں جمعہ کے روز جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بنچ نے سماعت کا آغاز کیا تو جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا آپ سے میرا 2010 ء کا تعلق بھی ہے، فیصل صدیقی اور سلمان اکرم راجہ جیسے وکلا نے ججز پر اعتماد کا اظہار کیا، لیکن جس انداز سے اعتراض کیا گیا، اس سے عدالت کے وقار پر سوال اٹھا، لہٰذا ادارے کی ساکھ کے تحفظ کے لیے بینچ سے الگ ہو رہا ہوں، میرا بنچ سے علیحدہ ہونا کسی اعتراض کے اعتراف کے طور پر نہ لیا جائے۔عدالت میں موجود ایڈووکیٹ حامد خان نے جسٹس صلاح الدین پنہور کے فیصلے کو قابلِ ستائش قرار دیا، تاہم جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ ستائش کا معاملہ نہیں، یہ سب آپ کے کنڈکٹ کی وجہ سے ہوا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ آپ کا طرزِ عمل اس ردعمل کی بنیاد ہے۔ ہم نے آپ کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کو سنا، حالانکہ ایک ہی پارٹی سے 2 وکیل دلائل کے حقدار نہیں ہوتے، پھر بھی آپ کو بولنے کا موقع دیا۔حامد خان نے موقف اختیار کیا کہ وہ اس کیس میں نظرثانی کی بنیاد پر دلائل دینے کا حق رکھتے ہیں،تاہم جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ اس کیس میں دلائل دینے کے حقدار نہیں تھے۔دوران سماعت جسٹس صلاح الدین پنہور نے مزید کہا کہ آپ کے دلائل سے میں ذاتی طور پر رنجیدہ ہوں، لیکن یہاں میری ذات کا معاملہ نہیں، ججز پر جانبداری کا الزام لگایا گیا جس سے تکلیف ہوئی۔ عوام میں یہ تاثر جانا کہ جج جانبدار ہے، درست نہیں۔بعد ازاں کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ ہوا اور وقفے کے بعد جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں دس رکنی آئینی بنچ نے کیس پر کارروائی کو آگے بڑھایا ۔سنی اتحاد کونسل کے دوسرے وکیل حامد خان نے کہا کیا دس رکنی بنچ ہی کیس سنے گا۔جسٹس امین الدین نے کہا ہم نے بنچ تشکیل دیا ہے۔حامد خان نے کہا دس رکنی بنچ کیسے کیس سن سکتا ہے۔جسٹس جمال نے کہا آپ قانون کے تحت بتائیں، اب قانون کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوگی۔حامد خان نے کہا آپ غصہ نہ کریں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا بات غصے کی نہیں، ہمیں قانون اور رولز کے تحت بتائیں، ہم نے بطور وکیل آپکی عزت کی،آپ نے سپریم کورٹ کی بطور ادارہ بے عزتی کی، ہم کل مر جائیں گے کوئی اور آ جائے گا، سپریم کورٹ رہے گی،آپ نے سپریم کورٹ بطور ادارہ ہماری بے عزتی کی۔حامد خان نے کہا آپ کو غصے میں یہ کیس نہیں سننا چاہیے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا میں اتنا کمزور نہیں ہوں آپکی باتوں سے بنچ سے الگ ہو جاؤں۔حامد خان نے کہا13 رکنی بنچ کے فیصلے کیخلاف 12 رکنی بنچ نظرثانی نہیں کر سکتا۔جسٹس امین الدین خان نے کہا آپکا اعتراض مسترد کرتے ہیں۔حامد خان نے کہا آپ میری زبان بندی کر رہے ہیں، غصے میں کیس نہ سنیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا میں آئین پاکستان کی خاطر اپنی ماں کی فاتحہ چھوڑ کر یہاں آیا ہوں۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اس آئینی بنچ میں بیٹھے دائیں بائیں وہ ججز ہیں جنھوں نے عدلیہ کی آزادی کیلئے جیلیں کاٹیں،آپ نے گزشتہ روز سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیخلاف باتیں کیں،قاضی فائز عیسیٰ ایک عزت دار انسان ہے، قاضی فائز عیسیٰ میرا رہنما ہے، آپ نے گزشتہ روز تضحیک آمیز باتیں کیں،ہم عدلیہ میں عزت کیلئے آئے ہیں،وہ عہدہ جس میں عزت نہ ہو میں اس پر لعنت بھیجتا ہوں، کل آپ نے عدالت کو ڈی چوک بنائے رکھا، آپکو کسی نے حق نہیں دیا ججز کی تضحیک کریں،ہم آپکی طرح جلسہ نہیں کر سکتے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا آپ صرف دلائل نظرثانی کی حد تک ہی محدود رکھیں۔حامد خان نے کہا آج عدالت جلدی میں ہے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا فالتو باتیں نہ کریں۔حامد خان نے کہا نظرثانی وہی بنچ کر سکتا ہے جس نے نظر اوّل میں کیس سنا ہو۔جسٹس امین الدین خان نے کہا آپ کے یہ اعتراضات مسترد ہو چکے ہیں۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا آپ لوگوں کی کردار کشی کرتے رہے، قاضی فائز عیسیٰ میرا مینٹور ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا پاکستان تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا، میں تو کہتا ہوں اسکی تحقیقات ہونی چاہئیں، کیوں یہ فیصلہ کیا گیا، اور اتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا پی ٹی آئی کو، اب تمام تر ذمہ داری عدالت پر ڈالی جا رہی ہے،اس کیس میں اصل حقائق سے متعلق قوم کو گمراہ کیا گیا،کیس میں فریق سنی اتحاد کونسل تھی، میں ذاتی طور پر تسلیم کرتا ہوں، سپریم کورٹ نے اس کیس میں اپنے اختیارات کو پھیلایا،سپریم کورٹ کو اپنے اختیارات کو پھیلانے کی وجہ سے آج یہ دن دیکھنا پڑا۔حامد خان نے کہا وہ ججز جو پہلے بنچ میں تھے اگر وہ ہوتے تو اسکا جواب دیتے۔حامد خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد بارہ جولائی کے فیصلے سے متاثرہ خواتین کے سینئر وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا فل کورٹ کا مطلب دستیاب ججز ہوتا ہے، مخصوص نشستوں کے نظرثانی کیس میں دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا گیا،پشاور ہائی کورٹ میں جن ججز نے کیس سنا وہ بنچ کا حصہ نہیں ہیں، آئینی بنچز میں نامزد دو ججز پہلی ہی سماعت پر فیصلہ دے کر چلے گئے، ایک جج آج بنچ سے الگ ہوئے، اس وقت جو دستیاب ججز اس کیس کو سن رہے ہیں یہی فل کورٹ ہے، میں ازسرنو دلائل نہیں دونگا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سپریم کورٹ کا پرانا عزت و احترام والا زمانہ واپس آنا چاہیے،بس اب بہت ہوچکا۔مخدوم علی خان نے کہا یہ دلیل دی گئی کہ 8 ججز نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے آئین سے بغاوت نہیں کی، میرا دوسری طرف سے تمام وکلاء کو چیلنج ہے، کوئی ایسا فیصلہ بتا دیں جس میں آئین سے بغاوت ہونے پر ہی نظرثانی کی گئی ہو۔قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا آئین و قانون سے ماورا عدالتی فیصلے پر بلا ہچکچاہٹ عدلیہ کو نظرثانی کرنی چاہیے، سپریم کورٹ نظرثانی مسترد، منظور یا کوئی تیسری بات بھی کر سکتی ہے، سپریم کورٹ جسٹس امین الدین، جسٹس نعیم اختر افغان والا فیصلہ برقرار رکھ سکتی ہے، سپریم کورٹ جسٹس جمال خان والے فیصلے کی طرف بھی جاسکتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کیا ہم اس کے علاوہ بھی کچھ کر سکتے ہیں؟ کیا مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر سکتے ہیں؟ نظرثانی میں لڑائی کرکے یا تضحیک کرکے ریلیف نہیں لیا جاسکتا۔جسٹس نعیم اختر افغا ن نے کہا پی ٹی آئی نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا لیکن اصل غلطی تو وکلاء کی تھی،جن پی ٹی آئی کے وکلا کو ابھی مزید تربیت کی ضرورت ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا میرے خیال میں تو یہ معاملہ تحقیق طلب ہے کہ وکلاء نے ایسا مشورہ کیوں دیا، بظاہر ہمارا اندازہ تھا ایک پارٹی غلط سائیڈ پر جا رہی ہے، ہم نے عوام پاکستان کو دیکھا نہ کہ ایک سیاسی جماعت کو، ہم نے خواتین کے حقوق کو بھی دیکھا تاکہ وہ پالیسی سازی میں شامل ہو سکیں، میں تسلیم کرتا ہوں، یہ سارا پھڈا میری وجہ سے بنا،میں نے مخصوص نشستوں کی مرکزی عدالتی کارروائی میں پوچھا تھا پی ٹی آئی ہمارے سامنے کیوں نہیں ہے، میں نے کہا تھا پی ٹی آئی کو ہمارے سامنے ہونا چاہیے تھا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا جمال مندوخیل صاحب معذرت کیساتھ سارے پھڈے آپکی وجہ سے ہی ہوئے ہیں۔اس بات پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اُٹھے۔مخدوم علی خان نے کہا نظرثانی کیس میں سنی اتحاد کونسل کے تین وکلاء آئے جنہیں سنا گیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ایک پشتو کا واقعہ ہے جسے اردو میں سناتا ہوں،ایک شخص نے جاننے والے سے ایک دن کیلئے بیل مانگا، بیل چار دن تک واپس نہ دیا، اس بیل کو مارتا بھی رہا اور کھانے کے کیلئے بھی کچھ نہیں دیتا تھا،الٹا بیل کے مالک کو بھی گالیاں دیتا تھا،بیل کے مالک نے کہا نہ میں بیل دیتا نہ مجھے گالیاں پڑتیں، یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔مخدوم علی خان نے کہا اکثریتی عدالتی فیصلے میں آرٹیکل 184 کی شق تین کا کوئیذکر نہیں ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا پوری تفصیل بتائیں، 80 اراکین اسمبلی میں سے کس نے پارٹی سرٹیفکیٹ دیا کس نے پارٹی وابستگی ظاہر کی،میں نے تمام کاغذات نامزدگی کا جائزہ لیا تھا،14 اراکین اسمبلی ایسے تھے جنھوں نے پارٹی سرٹیفکیٹ، ڈیکلیئریشن اور تمام تقاضے پورے کیے،باقی 25 اراکین ایسے تھے جن کے کوائف مکمل نہیں تھے، ہم نے سوچا کوائف یا پارٹی سرٹیفکیٹس مس ہو گئے ہونگے، دس ارکان تو ایسے بھی تھے جنھوں نے پارٹی وابستگی کے خانے میں نہ آزاد لکھا نہ ہی پی ٹی آئی لکھا۔معروضی حالات کی بات کی گئی، اگر کسی جج کو ذاتی علم ہو تو اس جج کو گواہ ہونا چاہیے۔جسٹس امین الدین نے کہا کاغذات نامزدگی کا ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں تھا۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب الجواب پر دلائل دیتے ہوئے کہا سیاسی جماعت کا وجود تو رہے گا مگر انٹراپارٹی الیکشن نہ ہونے پر اس کے امیدوار آزاد ہوں گے، میری گزارش ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹ بھی جاری نہیں کرسکتی۔بعد ازاں عدالت نے سماعت مکمل کی جسکا بعد میں شارٹ آرڈر جاری کردیا گیا ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here