یہ کیسی قوم ہے؟

0
158
جاوید رانا

میں الحمد اللہ ایک پاکستانی ہوں اور چار دہائیوں سے امریکہ میں رہتے ہوئے بھی میرا دل اور میری روح پاکستان کیلئے سوچ اور فکر کے حامل ہیں۔ میں بحیثیت انسان انسانیت کی تحقیر و بے توقیری پر فطری طور پر تڑپ اُٹھتا ہوں۔ 6 اور 7 جنوری کے مری کے سانحے کے حوالے سے معصوم ننھی بچی کی اپنے باپ کی گود میں معصومانہ باتیں اور بعد میں اس کی برف میں دبی ہوئی کار میں لاش کی ویڈیوز نے میرے حواس کو مختل کر کے رکھ دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سانحے کو اللہ کی رضا سمجھا جائے یا ذمہ داروں کی غفلت اور بے حسی کا شاخسانہ سمجھا جائے یا پھر اس قیامت صغریٰ کی ذمہ داری ان لوگوں پر ڈالی جائے جو برفباری سے محظوظ ہونے کیلئے وہاں پہنچے تھے۔ اس سانحے کے حقائق جس قدر تلخ اور جان لیوا ہیں اتنے ہی ہمارے حکمرانوں اور سیاسی اشرافیہ کی خود غرضی اور سیاسی سبقت اور جھوٹے دعوئوں کے بھی عکاس ہیں۔ دوسری جانب ہمارے ہم وطنوں کے رویوں اور اقدامات کو بھی واضح کرتے ہیں جو اپنے ولولوں سے سرد اسٹورم (طوفان) میں مری کا رخ کرتے ہیں اور ٹراپیکل اسٹورم آئے تو سی ویو چلو کا نعرہ لگاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایڈونچرزم اور دعویداری ہماری قوم کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ یہ امر حقیقت ہے کہ جیسی قوم ہو گی اسے ویسے ہی حکمران عطاء کئے جاتے ہیں۔ ہم نعرہ لگاتے ہیں ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں لیکن اپنی زندگیوں کو دائو پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ ہمارا یہ مزاج عوام کی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ حکمرانوں میں بھی اپنی برتری اور جھوٹے دعوئوں کو جائز قرار دینے کیلئے بدرجہ اتم موجود ہے۔مری کے حالیہ دلخراش سانحے کے تناظر میں ہی دیکھیں تو ہماری متذکرہ بالا تمہید تصدیق کرتی نظر آتی ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہں کہ ملکہ کوہسار میں موسم سرما کی برفباری کا لُطف اٹھانے کیلئے قیام پاکستان سے قبل ہی سے سیاحوں کی بہت بڑی تعداد یہاں آتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس بار برف کا طوفان گزشتہ 20-15 برسوں کا شدید ترین تھا۔ اور بقول حکمران ذمہ داروں و ترجمانوں انہیں اس شدت کا اندازہ نہیں تھا لیکن انہیں موسمیات کے 31 دسمبر اور 5 جنوری کے وارننگ نوٹیفیکیشنز کا ادراک نہیں تھا یا پھر وہ اپنے سیاحت کے ایجنڈے کے جنون میں جان بوجھ کر آنے والے حالات کے تدارک سے گریز کر رہے تھے۔ کیا انہیں یہ بھی احساس نہیں تھا کہ کرونا کی نئی لہر کے تیزی سے پھیلائو کے باعث وہ سیاحوں کو اس پہاڑی مقام پر آنے سے روکتے یا کم از کم ان کی تعداد میں کمی کے اقدامات کرتے، کیا متعلقہ حکمرانوں، ذمہ داروں اور اداروں کو حالات پر کنٹرول کیلئے پہلے سے ہی تیار رکھنا اور بروقت اقدامات کیلئے کوئی لائحہ عمل ضروری نہیں تھا۔
یہاں تو گنتا اُلٹی بہتی نظر آئی۔ حکومت کے وزیر اطلاعات نے سانحہ سے ایک دن قبل ہی اپنے ٹوئیٹر میں خوشی سے بغلیں بجاتے ہوئے مری میں ایک لاکھ سے زیادہ گاڑیوں کے داخلے کو سیاحت کے فروغ اور معاشی ترقی کا سبب قرار دیا۔ مری کی متعلقہ اتھارٹی کے مطابق مری میں گاڑیوں کی پارکنگ گنجائش محض ساڑھے چھ ہزار ہے۔ کیا متعلقہ حکومتوں کے سربراہوں کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ اپنے انتظامی اداروں کے ذمہ داروں کو عملی اقدامات کیلئے الرٹ پر رکھتے۔ اسلام آباد سے ایکسپریس وے اور دیگر لنک روٹس پر متعلقہ ٹول پر گاڑیوں اور مسافروں کا ریکارڈ دیکھ کر بروقت آمد نہیں روکی جا سکتی تھی۔ کیا سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر روکا نہں جا سکتا تھا۔ سب کچھ ہو سکتا تھا شرط صرف یہ تھی کہ اس ایشو کو اہمیت اور ترجیح دی جاتی۔ وہاں تو عالم یہ تھا کہ وسیم اکرم پلس بزدار عین سانحے کے وقت گورنر پنجاب اور اپنے تنظیمی و حلیف جماعتی افراد کے ہمراہ بلدیاتی انتخابات سے متعلق کمیٹی میٹنگ میں مصروف تھے۔ وزیراعظم کے توجہ دلانے پر موصوف کو ہدایات جاری کرنے کا ہوش آیا۔ مری میں جب ہزاروں گاڑیاں دبی ہوئی تھیں، لوگ اپنی زندگیوں کی بازی ہار رہے تھے، مری کے انتظامی افسر اعلیٰ اسسٹنٹ کمشنر ٹک ٹاک بنا رہے تھے اور ایس ایچ او All Well کے نعرے لگا رہا تھا۔ اسلام آباد کے اے ایس آئی کے مسلسل رابطوں و پیغامات کے باوجود اسلام آباد و پنڈی کے انتظامی افسروں حتیٰ کہ وزیر داخلہ تک کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی۔ مرحوم کے بیٹے نے اسلام آباد میں ہوتے ہوئے متعلقہ افسر کو فون کیا تو اس نے کہا کھانے کے بعد بات کرونگا، نتیجتاً اس گاڑی میںسوار 8 افراد جان سے چلے گئے۔ بے حسی اور لاپرواہی کی اس سے زیادہ کیا حد ہوگی۔
بے حسی کی تو بہت سی مثالیں اس سانحے کے نتیجے میں سامنے آئی ہیں بلکہ انہیں خود غرضی اور منافقانہ روئیے کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ وہی وزیر اطلاعات جو 6 جنوری کو لاکھوں افراد و گاڑیوں کی آمد پر خوشی سے نڈھال تھے، سانحے کے دوسرے روز اس تمام صورتحال کا عوام کو ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ وزیراعظم کا فرمان تھا کہ لوگوں کو موسم سے آگاہی کے بعد نکلنا چاہیے تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب دو روز بعد صورتحال کا جائزہ لینے اور مرحومین کیلئے آٹھ لاکھ فی کس ادائیگی کے فوٹو سیشن کیلئے چمکتے سورج کی روشنی میں پہنچے اور ظاہر یہ کیا کہ برف کے ڈھکے ہوئے علاقے میں پہنچے ہیں ڈپٹی کمشنر، کمشنر کے ہمراہ تصویریں بنوائیں اور چلتے بنے۔ پختونخواہ کے وزیراعلیٰ کا کوئی رد عمل سامنے نہں آیا ہے گویا ٹُک ٹُک دیدم دم نہ کشیدم والا معاملہ ہے۔
آج جب میں مری کے ہلاک شدگان کا نوحہ لکھ رہا ہوں پانچ روز گزر چکے ہیں 23 مرحومین کے کراچی سے خیبر تک موجود لواحقین اپنے پیاروں کے غم میں نڈھال ہیں، حکومت نے آٹھ لاکھ فی کس معاوضہ، مری کے اپ گریڈیشن اور سیاحت کی بہترین سہولیات کے منصوبے و اقدامات کے اعلانات کر دیئے ہیں حکومتی اور مخالفتی گر گے شوز میں بیٹھ کر الزامات و تضحیک میں مصروف ہیں یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ نتیجہ رات گئی بات گئی والا ہی ہوگا۔ اس کا ثبو ت ماضی کے وہ واقعات ہیں جن کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ اپنی جانوں سے گئے، کمیٹیاں بنیں، تحقیقات ہوئیں اور نتیجہ ڈھاک کے تین پات۔ اس واقعہ کے حوالے سے یہ امر بہتر ہے کہ متاثرین میں کوئی غیر ملکی سیاح نہیں لیکن کیا اس سانحے کی وجہ سے سیاحت جیسے اہم شعبہ پر دنیا میں منفی اثر نہیں پہنچے گا، حکومت کو سوچنا ہوگا۔ سیاحت کی ترقی کیلئے مکمل سیاحت، انتظامات، ابلاغ و اقدامات ضروری ہیں ورنہ دنیا یہی کہے گی یہ کیسی قوم ہے جو زندگی کی رونقوں کو بھی موت میں تبدیل کر دیتی ہے۔ کہنا تو ہمیں بھی پڑ رہا ہے کہ یہ کیسی قوم ہے جو ہر حادثے پر واقع کو جذب تو کر لیتی ہے لیکن اپنے اطوار میں بہتری لانے پر تیار نہیں خواہ وہ قدرتی آفات ہوں، وبائیں ہوں یا سیاسی مکافات وہ ریوڑ کی طرح چل پڑتی ہے۔ ابھی مری کے سانحے پر سراپا احتجاج ہے کل پرسوں سب بھول کر پھر سمندی طوفان مین سی ویو پر، برفانی طوفان میں ہل اسٹیشنز پر بے سرو سامان و احتیاط پہنچ جائے گی بلکہ سیاسی تماشہ بازوں سے متواتر دھوکے کھانے کے باوجود پھر ان کے جال میں پھنس جائے گی شاید اسی لئے شاعر نے کہا تھا!
جس کو ٹھہرایا ہے اس راہ میں رہبر تم نے
وہ بھی رہزن ہی جو نکلا تو کدھر جائو گے
معاملہ صرف حکومت،انتظامیہ یا عوام تک ہی نہیں لالچی کاروبایوں کی بے حسی اور خود غرضی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔یہ کیسی قوم ہے!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here