فروم دی ریور ٹو دی سی!!!

0
96
حیدر علی
حیدر علی

انصاف کے ترازو کا ایک پلڑا اتنا زیادہ جھک گیا کہ وہ اپنے تشخیص کو بھی کھو کر منحنی لکیر کی شکل میں نظر آنے لگا، امریکی ایوان نمائندگان میں انصاف کی جس طرح دھجیاں اُڑائی گئیں وہ اساتذہ اور والدین کیلئے بڑی مشکل کا پیش خیمہ بن گئیں ، اُنہیں یہ سمجھانا اپنے بچوں کو مشکل ہوگیا ہے کہ اِس دیس میں مجرم وہ قرار پاتا ہے جو سچ بولتا ہے اور جو ہزاروں کی تعداد میں شیر خوار بچوں کے خون سے اپنا ہاتھ رنگتا ہے، لاکھوں کی تعداد میں مکانوں کو دوہزار پونڈز کے بموں سے مسمار کر دیتا ہے اور جو ایک جیتے جاگتے شہر کو دہکتے ہوے شعلوں میں بدل دیتا ہے ، اور جو اُس کے باسیوں کو پانی، غذا اور بجلی سے اچانک محروم کردیتا ہے اُس کا دامن اِس دیس میں ہمیشہ پاک و صاف رہتا ہے۔ مجرم ہونے کی بہترین مثال راشدہ طلیب ہیںجن کے خلاف ایوان نمائندگان میں ایک مذمتی قرارداد منظور کی گئی ہے، اُن پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ کیوں نہیں اُنہوں نے جھوٹ بولا؟ کیوں اُنہوں نے کہا کہ صدر امریکا جو بائیڈن فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے پر تلا ہوا ہے کیوں اُنہوں نے اپنی دادی کی تصویر اپنے ہاتھوں میں تھامے یہ کہا کہ ” مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ میں یہ کہوں کہ فلسطینی عوام برائے فروخت نہیں ہیں،ہم لوگ دوسروں کی طرح انسان ہیں دوسرے فلسطینیوں کی طرح اپنی دادی اماں کی طرح جو آزادی اور انسانی وقار کی فضا میں سانس لینا چاہتی ہیں ، جس کی وہ مستحق ہیں”
اُن کے خلاف مذمت کی اِس تحریک کو کانگریس کے رکن رِچ میک کورمک جنکا تعلق جارجیا سے ہے پیش کیا تھا، ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین کانگریس نے مذکورہ قرارداد کو مسترد کرنے کی کوشش کی تھی ، لیکن ریپبلکن اراکین اِسے کامیاب نہیں ہونے دی تھی۔ اُسی موقع پر راشدہ طلیب نے ایوان کانگریس سے خطاب کرتے ہوے ایک جذباتی تقریر کی تھی، آنسوؤں سے اُن کا چہرہ تر بتر تھا، مذمتی قرارداد کا جواز راشدہ طلیب کے اُس بیانئے کو بنایا گیا تھا جس میں اُنہوں نے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حماس کی حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ اسرائیل کو اِس کرہ ارض سے مکملا”مٹا دینا چاہئے تاہم مذمتی قرارداد کی منظوری کیلئے جب ہاؤس میں ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو اُس کے حق میں234 اور مخالفت میں 188 ووٹ پڑے،قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والوں میں ریپبلکن پارٹی کے اراکین پیش پیش تھے،شاید وہ عام انتخابات میں اپنی شکست کا بدلہ فلسطینیوں سے لینا چاہتے تھے، یہ رائے شماری اِس بات کی غمازی کرتی ہے کہ امریکا میں بعض سیاستدانوں کی جنگجوانہ ذہنیت اور اُن کی خمیر میں فلسطینیوں کے خلاف متعصبانہ رویہ رکھنے کے باوجود بھی امریکیوں کے رائے عامہ میں اہم تبدیلیاں نظر آرہی ہیں، بلاشبہ وہ کانگریس مین جنہوں نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا وہ ہماری حمایت، ہمدردی اور خراج تحسین کے مستحق ہیں۔فلسطینی ریاست کی حمایت میں نکلنے والے انسانی سمندر وں کا جلوس بھی لوگوں کو حیران کردیا ہے. یہ جلوس آج بھی ایک ہی شہر کے کئی مقامات سے روزانہ کی بنیاد پر نکل رہا ہے. جلوس کا ایک اہم نعرہ ” فروم دی ریور ٹو دی سی” بہت زیادہ مقبول ہوا ہے، یہ اردن کی دریا سے بحیرہ روم کے سمندر تک فلسطین ریاست کے قیام کا مطالبہ ہے،”فروم دی ریور ٹو دی سی” کے نعرہ کو جسے قدامت پسند اینٹی سمیٹک اور یہودیوں کو نیست و نابود کرنے کا عزم قرار دیتے ہیں راشدہ طلیب نے کانگریس کے بھرے اجلاس میں بھی اِسے لگایا تھابعد ازاں اُنہوں نے وضاحت کرتے ہوے کہا کہ یہ نعرہ دِل کے گوشہ میں کسی خواہش کو زندہ رکھنے کے مترادف ہے اور جسکا مطلب آزادی، انسانی حقوق ، امن اوروجود باہمی ہے اور اِس کا ہرگز مطلب نسل کشی، نفرت اور تباہ و بربادی نہیں ہے، ہاؤس فلور پر راشدہ طلیب نے اپنے ہم پیشہ سے گفتگو کرتے ہوے کہا کہ اُن کی تنقید ہمیشہ یہودیوں کے بجائے اسرائیلی حکومت کے خلاف ہوتی ہے جس کے روح رواں نیتن یاہو ہے۔راشدہ طالب کے خلاف مذمتی قرارداد کی حمایت کرتے ہوے منی سوٹا کی کانگریس وومن نے کہا ہے کہ فلسطینی رہنما طلیب بہت تیزی سے ڈِس انفارمیشن کی مرتکب ہورہی تھیں، اُن کی یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے، کیا راشدہ طلیب نے یہ غلط کہا تھا کہ غزہ کے ہسپتالوں پر اسرائیلی بمباری سے ہزاروں کی تعداد میں بچے جن کی عمریں پانچ سال سے بھی کم تھیں شہید ہوئے ہیں ، شہید ہونے والے افراد میں بچوں اور عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں. اسرائیلی فوج جس کسی حماس کے سپاہی کو گرفتار کرتی ہے اُسے ہلاک کردیتی ہے، کیا اُنہوں نے یہ غلط کہا تھا کہ اسرائیل کا بنیادی مقصد غزہ سے تمام فلسطینیوں کو ہلاک یا علاقہ بدر کردینا ہے،ایک دوسرے کانگریس مین جس کا تعلق نیویارک سے ہے اُس نے سچ کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ گزشتہ پچاس سال سے اُسکے والد اور اُس کا خاندان یہودیوں کی امداد پر پلا بڑا ہوا ہے آخر وہ کس طرح اچانک اُن کی مخالفت کر سکتا ہے، اُس نے مزید کہا کہ اگر وہ یہودی کی مخالفت کرے گا تو فورا”وہ اُس کے خلاف ہوجائینگے، اُن کا میڈیا اُس کے خلاف من گھڑت خبریں نشر کرنے لگے گا، اور کوئی بعید نہیں کہ چند دِن کے بعد ایف بی آئی والے کسی جھوٹے الزام میں اُسے گرفتار کرلیں، اور وہ اپنی کانگریس کی سیٹ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے،فلسطینیوں کو امداد کی جتنی ضرورت ہے شاید ہی کسی اور کو ہو، آپ اُنہیں یہ امداد ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز اور یونیسف یو ایس اے آرگ کو چندہ دے کر،کرسکتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here