”سچ کی مرضی”

0
33
ماجد جرال
ماجد جرال

یہ دونوں روایات درست ہیں کہ جھوٹ اتنا بولو اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے، اور دوسری یہ ہے کہ سچ کو جتنا مرضی دبا لو بالاخر ایک دن وہ ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن ہمیشہ اپنی جماعت کے نظریات کا تحفظ کرتے ہیں اور یہی سیاسی جماعتوں کا جمہوریت میں اپنا کردار زندہ رکھنے کا بنیادی اصول ہے۔ دنیا بھر کی سیاست پر نظر دُہرا لیں ہر جماعت کے اپنے نظریات ہی اس کو ایوان اقتدار تک پہنچاتے ہیں اور ان نظریات سے پیچھے ہٹنے کا مطلب اپنی سیاسی خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک ہے جہاں پر سیاسی جماعت کے نظریات صرف بطور اپوزیشن جماعت ہی مقدم رکھے جاتے ہیں مگر ایوان اقتدار میں قدم رکھتے ہی ان نظریات کو اپنے ہی قدموں تلے روند دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کو کل کسی اور سیاسی جماعت سے وابستگی رکھنے والے کارکن آج کسی اور جماعت سے سیاسی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
مگر پاکستان تحریک انصاف نے نظریات کے ساتھ ایک اور رویہ بھی اپنے کارکنوں کو عطا فرمایا جس کے سبب آج سو لوگوں کے درمیان بھی پاکستان تحریک انصاف کے کارکن کو آرام سے پہچانا جا سکتا ہے۔اس جماعت نے نظریے کی بجائے پروپیگنڈا کو معاشرے میں پھیلانے پر زور لگایا، پروپیگنڈا بھی وہ جس میں 10 فیصد سچ اور 90 فیصد جھوٹ بولا گیا اور اسی سبب آج پاکستان تحریک انصاف کا کارکن سماج میں جھوٹ کو بولتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتا۔ سادہ سی بات ہے کہ جب کسی سیاسی جماعت کا نظریہ ہی جھوٹ بولنا ہو تو کارکن تو اپنے نظریے کا تحفظ کریں گے جس کے اثرات پورے معاشرے میں بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔کوئی شک نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا جنم جب ہوا تو معاشرے کے پڑھے لکھے لوگ اس کے ساتھ کھڑے تھے، جسٹس وجیہ الدین، فوزیہ قصوری، شیریں مزاری اور جانے کتنے ہی نام شامل ہیں، پھر پارٹی کے اصل نظریے پر ڈٹے رہنے والے لوگ اس پارٹی سے الگ ہوتے گئے اور جھوٹے پروپگنڈے کو پھیلانے کے نظریے کے حامل افراد آج بھی اپنا کام دل و جان سے کر رہے ہیں۔دوسری روایت بھی درست ہے کہ سچ کو جتنا مرضی دبا لو بالاخر ایک دن وہ سامنے آہی جاتا ہے۔چاہے وہ عمران خان کے خط کی صورت میں ہو، امین گنڈاپور کا استعفیٰ ہو یا شیری مزاری کی خاموشی ہو۔یہ سب چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم جھوٹ بولنے اور پھیلانے کے جس نظریے پر کھڑے تھے آج سچ کے ایک تھپڑ نے اس کو زندہ دفن کر دیا ہے۔اصولوں کے سودے بازی کا فن تو پاکستان تحریک انصاف اب سیکھ ہی چکی ہے، یقین نہیں آتا تو مولانا فضل الرحمن اور چوہدری پرویز الہٰی وغیرہ سے پوچھ لیں۔ابھی شاید اس میں کچھ دیر لگے کہ سو لوگوں میں سے پاکستان تحریک انصاف کے کارکن کو پہچاننے میں کچھ دقت ہو مگر فی الحال وہ وقت دور ہے کیونکہ یہ سچ کی مرضی ہے کہ کب وہ ان لوگوں کو قبول کرتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here