”کامیاب لیڈر شپ”

0
38

پاکستان میں بہت سے لیڈر آئے لیکن بہت کم ایسے ہیں جوکہ کامیابی کی منزل طے کر سکے ، ذوالفقار علی بھٹوکے بعد شاید ہی پاکستان کو کوئی کامیاب لیڈر نصیب ہوا جس نے پاکستان کے ساتھ عالمی سطح پر بھی معاملات کو احسن انداز سے حل کیا لیکن پھر ان کے ساتھ کیا ہوا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ، کسی بھی سیاسی لیڈر میں پہلی خصوصیت عاجزی اور میانہ روی ہونی چاہئے ، اپوزیشن سمیت تمام رہنمائوں سے عاجزی اور انکساری سے ملاپ ان کے سیاسی قد کو بہت اونچا کر دیتا ہے لیکن اس حوالے سے بانی تحریک انصاف عمران خان کافی پیچھے رہے ہیں ، سیاسی مخالفین کو للکارنا ، ان کے نام بگاڑنے کا کلچر عمران خان نے ہی پاکستانی سیاست میں متعارف کروایا ہے جوکہ نہیں ہونا چاہئے اور پھر سیاست میں ”میں” کا راگ الاپنا خود کشی کے مترادف ہوتا ہے اور عمران خان کا یہی رویہ ان کی حکومت کے جلد خاتمے کا باعث بنا ہے ، عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ تکبر ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے سے کم تر افراداور مخالفین سے ملنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں ، جیل میں قید کے دوران اب عمران خان کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ معاملات کو درست انداز سے چلانے کیلئے مفاہمت بہت ضروری ہے شاید اسی لیے انھوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خط لکھا ہے جس میں اپنے تحفظات کا کھل کا اظہار کیا ہے ، اگر و ہ یہی اقدام سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے ساتھ بھی کرتے تو آج حالات بہت مختلف ہوتے ۔مسلم اُمہ کے لیے سب سے بڑے لیڈر حضور اکرم ۖ ہیں ،جنھوں نے اخوت، بھائی چارے، دشمنوں کے لیے معافی کا عملی مظاہرہ کر کے دکھایا ،انھوں نے بتایا کہ کسی سے بھی ملاقات کے دورا ن سب سے پہلے اس شخص پر سلامتی بھیجیں ، سلام کریں ۔ضروری نہیں کہ لیڈر شپ کوالٹی صرف سیاسی میدان کے لیے ہوتی ہے بلکہ فوج ، پولیس اور دیگر سرکاری اور نجی محکموں میں بھی ایسے افراد کو ضرور سوچنا چاہئے جن کو اختیارات تفویض کیے گئے ہیں کہ وہ دوسرے افراد سے کس پیار ،محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں اور اپنے معاملات کو میانہ روی کے ساتھ آگے بڑھاتے ہیں ، اگر اللہ تعالیٰ کسی کو کوئی مرتبہ عطا کرتا ہے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا تو اس میں اُس شخص کی ضرور آزمائش ہوتی ہے ، پاکستانی سیاست میں جو مقبولیت عمران خان کو ملی بہت کم لیڈرز کو ملی یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستانی نوجوانوں کے لیے رول ماڈل بن گئے ہیں اور ان کے جارحانہ رویے کی وجہ سے نوجوان طبقے نے یوٹرن لیا ہے جس سے سیاسی اقدار میں نمایاں تبدیلی آئی ہے ۔پاکستان میں موروثی یا خاندانی سیاست کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ تین دہائیوں سے پنجاب کے تقریباً 400 خاندان ہیں جو مسلسل ایسی پالیسیاں بناتے اور قانون سازیاں کرتے چلے آ رہے ہیں جن کی وجہ سے قومی وسائل اور نجی شعبوں میں ان کی طاقت بڑھتی چلی جا رہی ہے اور بظاہر تاحال یہ حالات آج بھی نہیں بدلے۔موروثی سیاست جاگیرداروں کے طبقے تک محدود نہیں رہی بلکہ سیاست میں آنے والے صنعت کاروں اور کاروباری طبقے بھی اپنے اپنے وارث سیاست میں لے کر آئے اور اس طرح انھوں نے ملک میں پہلے سے جاری موروثی سیاست کی روایت کو جلا بخشی۔پاکستان کی سیاست پر آج بھی فیوڈل سسٹم (جاگیردارانہ نظام) حاوی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 70 کی دہائی میں اعلان تو کیا تھا کہ وہ اس کا خاتمہ کریں گے مگر اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں یہ سلسلہ پاکستان میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔پاکستان سمیت دنیا میں کوئی جمہورت ابھی اتنی ‘میچور’ نہیں ہوئی اور نہ ہی کہیں سیاسی پارٹیاں اتنی مضبوط ہوئی ہیں کہ صرف پارٹی کے نام کی بنیاد پر الیکشن میں ووٹ حاصل کیے جا سکیں،خاندانوں کا بھی اثر ہوتا ہے، شخصیات کا بھی اثر ہوتا ہے مگر یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں جتنی زیادہ موروثی سیاست ہے اس کو کم ہونا چاہئے مگر ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ یکسر ختم ہو جائے اگرچہ پاکستان میں موروثی سیاست کی جڑیں کافی گہری ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب بہت سے ووٹرز، بالخصوص شہری علاقوں میں’ کی جانب سے اس نظام کے خلاف تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔مڈل کلاس آدمی کا آج کے حالات بطور امیدوار الیکشن لڑنا لگ بھگ ناممکن ہے۔متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور جماعت اسلامی دو ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جو کسی حد تک اپنے امیدواروں کو الیکشن لڑنے کے لیے مالی مدد فراہم کرتی ہیں مگر دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو نہ صرف الیکشن لڑنے کے لیے پیسہ خود لگانا پڑتا ہے بلکہ پارٹی کو بھی فنڈز دینے ہوتے ہیں۔آج وقت آ گیا ہے کہ ہم سیاست کی بجائے معاشرے کو سدھارنے کی طرف توجہ مبذول کریں ، نوجوان طبقے میں اخلاقیات کو اجاگر کریں ، معاشرے کی اصلاح کریں ،ہمارے نوجوان، عوام خود میں تبدیلی اور بہتری لائیں گے تو معاشرے میں تبدیلی آئے گی ،ملک کے بڑوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اچھے اخلاقی کردار سے نوجوانوں کیلئے مثال پید ا کریں ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here