عامر بیگ کے افسانوں کا گلدستہ ”مانتو”

0
44
کامل احمر

ہم اس کے لئے مجموعہ کا لفظ بھی استعمال کرسکتے تھے لیکن جس طرح گلدستہ میں چھوٹے بڑے پھول، پتیاں ہوتے ہیں یہ مجموعہ اس سے مشابہت رکھتا ہے۔ دوسرے معنوں میں مختصر کہانیوں کا گلدستہ ہے، کچھ تو اتنی مختصر جیسے ”نئی دلہن” اور ”ڈاکٹر” کہاوت کی طرح پھر گلدستہ کو نیچے سے تراش کر اس کے درمیان ”مانتو” جیسی خوبصورت کہانی کو اس کتاب کی آن بنا دیا گیا ہے۔ عامر بیگ جو پیشہ سے جانوروں کے ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ انسانوں کے ڈاکٹر بھی ہیں اور اپنی بیماری کے دوران کینسر سے متعلق تمام معلومات لیتے رہے ہیں جب وہ آٹھ سال پہلے ہم سے ملے ”میرا کوز” میں تو انکی پہاڑی رینچ پر واصف حسین واصف صاحب کے ساتھ تھے۔ اس وقت وہ ٹرک میں لائے گئے بکروں کو دیکھ رہے تھے ،ہماری سمجھ سے باہر تھا کہ اتنے بکرے کس لئے تو معلوم ہوا کہ عید قربان پر موصوف یہ خدمت بھی کرتے ہیں وہاں کے رہنے والے مسلمانوں کی۔ اور اس کو ذبح کرنے کا بھی سارا انتظام ہے پھر وہ ہم سے جڑ گئے۔ اور دنیا جہاں کی پاکستان کے ہر شہر اور جنوبی امریکہ میں تعلیم کے دوران گزارے دن وہاں پر رہ کر انکی زندگی اور بولی۔ اور زندگی سے متعلق واقعات اور حادثات ذہن نشین کرتے رہے۔ ہم چونکہ خود افسانے لکھتے رہے ہیں اور دوسرے نئے لکھنے والوں کو بغور سنتے رہے ہیں چند ہی لوگ ہیں جو افسانوں کی طرف راغب ہوتے ہیں یہ اب ایک بھاگ دوڑ، خومخواہ کی مصروفیت کا عذاب ہے تو ہم نے کہا ”محبت ایک استخارہ ہے” شاعری پر کتاب ہے۔ تم ایک بہترین افسانہ نگار بن سکتے ہو۔ لکھو کہ تمہارے پاس تہمارے اردگرد ہزاروں پلاٹ ہیں ان پر لکھو ہم نے یہ بھی واضع کردیا کہ خیال رہے۔ ”کہانی”(الف لیلوی) افسانہ سے مختلف ہے بس یوں سمجھو کہ افسانہ ”جزبات کا شدید اظہار ہے” گلزار کا کہنا ہے جب کہ منشی پریم چند نے یوں تعریف کی ہے یہ ایک چھوٹی سی کھڑکی ہے جس سے تم نظر آنے والے کرداروں کو دکھا رہے ہو” منٹو نے کچھ مختلف طریقہ سے کہا ہے منوں من مٹی کے نیچے دیا ہوا وہ سوچ رہا ہے کون بڑا افسانہ نویس ہے۔ خدا یا وہ ”افسانہ کے لئے تجسّ سب سے اہم ہے جو پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لیتا ہے یہ نہ ہو تو پڑھنے والا ورق گردانی کرکے آگے بڑھ جاتا ہے۔ اور اس کی روشنی میں اگر اُن کے افسانوں کی جانچ کی جائے تو مجموعہ کا دوسرا افسانہ جو کتاب کا نام ہے ”مانتو” تجسّ لئے آگے بڑھتا ہے اور پڑھنے والا سوچتا ہے دیکھیں آخر میں کیا ہوگا۔ ”ایران کے ماحول اور کردار ”مانتو” کو دھیرے دھیرے عامر بیگ نے دل میں اتارا ہے اور پھر بھی پیاس بجھتی نہیں ہے۔ بلونت سنگھ نے اپنے افسانے ”جگاّ” کی ہیروئن کی یوں تعریف لکھی ہے جس نے پڑھنے والوں کو تحریر میں تصویر دکھائی ہے کہ ساٹھ سال پہلے پڑھی ”جگا” کی گورنام ابھی بھی یاد ہے وہ ایک گڑیا کی مانند تھی چینی کی مورت چلتی تو سبک رفتاری کے ساتھ کہ نقش قدم معووم سرمگیں اور بدمست آنکھیں ایسے گناہ کی دعوت دیتی تھیں کہ جس سے بہتر ثواب کا تصورّ ذہن میں نہ آتا تھا۔ لیکن ابھی وہ معصوم تھی شباب کی آمد آمد تھی” اب ذرا عامر بیگ کی”مانتو” کی طرف آئیں ”مانتو صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں مانتو میں بھی اس کے سڈول جسم کے سارے اعضاء اپنا ہونا ظاہر کر رہے تھے۔ نکلتا ہوا قد بڑی بڑی کامل بھری مقناطیسی آنکھیں سرخ وسپید چہرہ پرکشش دہانہ کھلتے ہوئے گال اور بھرے بھرے ہونٹ بلاشبہ وہ حسن کا ایک مجسمہ تھی” یقیناً عامر بیگ نے بلونت سنگھ کا جگا نہیں پڑا ہوگا لہذا یہ انکے اپنے الفاظ ہیں اور9صفحات پر پھیلا بہ افسانہ بہت خوب اور مقابلتا، دوسرے افسانوں کے طویل ہے۔ اب ہم ترتیب سے دوسرے30افسانوں کا مختصر جائزہ لئے دیتے ہیں۔ پہلی کہانی(افسانہ) ”نذرانہ” اپنے ماحول میں رچا بسَا اچھا افسانہ ہے اور بچپن سے لڑکپن اور مرکزی کردار حمیرہ کو شروع سے آخر میں لاکر دلچسپی پیدا کی ہے۔ ”اسی طرح ”ننگا ڈانس” ایک حقیقت ہے جس میں انوکھا پن ہے روزہ کا کردار مختلف اور خوبصورت ہے ”بے بی کے اُٹھنے پر اس کے لئے فیڈر بنا دینا میں جنیٹل مین کلب جارہی ہوں” زمانے کی حقیقت پر بھرپور وار ہے”
افسانے تو افسانے، خود عامر بیگ محبت سے لبریز ہیں ان ہی کے شعر میں ”لکھی نہیں میں نے غزابی آنکھیں۔ اس میں رکھا تیری آنکھوں کا حوالہ میں نے” اُن کے تقریباً ہر افسانے کی ہیروئن خوبصورتی کا مجسمہ ہے اور کہیں بھی بدصورتی نظر نہیں آتی سوائے اُن کے افسانے ”شمع” میں پڑھنے والے کا دل مسوسہ ہے ”بی ایم ڈبلیو” کی تمام لڑکیاں حسین وجمیل ہیں سرخ وسفید رنگت خمار آلود آنکھیں بھرا بھرا جسم اور سیاہ گھینرے بال(یہ ایک مریضہ کی تعریف میں) ہر افسانہ پڑھ کر ”مانتو” سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ ”ہیرا میں عطیہ کی تعریف کا یہ انداز انوکھا ہے بچپن کا تانبہ نوجوانی کی بھٹی میں پگھل کر سونا اور سونے سے کندن میں ڈھل کر لشکارے مارنے لگا تھا ”اختتام غیر متوقع ہے لیکن کہانی کا تقاضہ ہے ”معصومیت” اور اس کے بعد ضرورت رشتہ میں مولویوں کی شکل میں آئے ہوئے اور اُن کے مال بنانے کی کہانی ہے ایک مشاہدے کے انداز میں۔ انکے تیزی میں لکھے افسانے ”جدائی”، ”نیٹ پریکٹس”، ”بھروسہ”، درد کی حد ”آسان طریقہ”، کرسچین، ”بدلہ”، ”گھر گرہستی،” بلی کی افزائش نِسل پر خوبصورت تانہ بانہ بنا گیا ہے۔ ”ایس پی طاہر” جلیبی جلدی میں لکھے گئے لگتے ہیں لیکن پھر”گرین کارڈ” کی کہانی حقیقت سے قریب ہے یہ ہی خوبی ہے افسانے کی اور آدھے مضحہ کے دو افسانے ”نئی دلہن” اور ”ڈاکٹر” افسانے سے زیادہ چٹکلے لگتے ہیں۔ لیکن ”فرٹائل فیملی” ایک اچھی کہانی ہے ”ڈاکٹر ٹویا” اغلام بازی پر ہے پلاٹ خالی خالی سا ہے حالانکہ موضوع اچھا ہے۔ مختصر افسانوں میں ہی عامر بیگ نے ”جرات میں جرات مندانہ پہلو ہے جب ” بٹی ماں سے کہتی ہے مامی میراوائیریٹر(VIBRATER) مجھ سے پوچھے بنا استعمال کرنے کی جرات کیسے کی”اسے اور بھی اچھا بنایا جاسکتا تھا”تھرٹین” اچھے پلاٹ پر اچھی تحریر کے ساتھ ہے لیکن تجس کا فقدان ہے۔ اس میں ایک اہم کہانی”شہناز” ایک کرسچین لڑکی کی کہانی ہے جو ڈاکٹر کے گھر میں کام کرتی ہے لیکن گائوں سے ڈاکٹر سے ملنے آتے ہیں وہ جھوٹ اچھوت کی بیماری میں ہیں اور اس کے ہاتھ کا بنا کھانا سے انکار کرکے واپس چلے جاتے ہیں”۔ ”کچی کلیاں” اچھا عنوان ہے شروعات بھی اچھی کی ہے کتاب میں افسانہ ”جیلیسی” کا آخری جملہ جس میں ڈاکٹر اور اس کی بیوی کی مہمان خانہ جاتے وقت کہتی ہے۔ ”جیلیسی عورت کو کہیں کا نہیں چھوڑتی” اتنی بھرپور کہانی کے آخر میں یہ جملہ ہلکا ہے، لکھنا پڑ رہا ہے۔ عامر بیگ نے اپنی بیشتر کہانیوں کا ماحول میڈیکل پیشہ کے اردگرد رکھا ہے۔ کردار بھی اس ہی سے وابستہ ہیں لیکن افسانوں کے تین عناصر میں سے۔ ”کردار نگاری مناظر(SCREEN PLAY)سب خوب ہیں بس ”تجسّ کی کمی نظر آتی ہے تحریر اچھی اور خوب ہے۔ زیادہ تر میں یکسانیت لگتی ہے لیکن کہانی(افسانہ) کی تعریف پر عامر بیگ پورے اترتے ہیں۔ ”ایک چھوٹی کہانی افسانوی کام ہے جو مختصر انداز میں ہو اور ایک ہی نشست میں پڑھا جائے۔ کچھ افسانے تو چلتے چلتے پڑھے جاسکتے ہیں۔ کتاب کی اشاعت سے جس میں ٹائیٹل اہم ہوتا ہے کو دیدہ زیب کیا گیا ہے۔ اور ناصر علی سید اور واصف حسین واصف شمالی امریکہ کے ادبی اور شاعرانہ حلقوعں کی شان ہیں دونوں کو دسترس حاصل ہے اور انہوں نے جو کچھ لکھا ہے عامر بیگ کی پہچان ہے۔ ”ڈاکٹر عامر بیگ نے اپنے عہد کی سفاک حیوانیت پا رسائی میں لپٹی خیاثتوں برہنہ کمینگیوں اور شرمناک منافقتوں کے خلاف ”مانتو” کی صورت میں ایکFIRدرج کرائی ہے۔”تفصیل میں جائے بغیر بھرپور تعارف ہے واصف صاحب نے جو لکھا ہے آپ کو عامر کے افسانوں میں اخلاص، سچائی اور سادگی نظر آئیگی یہ ہی سادگی اس کا حُسن ہے۔”139صفحات پر مبنی کتاب میں 36صفحات پر اُن کے جاننے والوں کا تعارف اور104صفحات پر مختصر افسانے اگر ہم مجموعی انداز سے دیکھیں تو یہ کتاب ان کو نئے انداز سے روشناس کراتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here