عالمی مالیاتی نظام تہذیبی ٹکرائو سے متصادم!!!

0
38
شبیر گُل

دنیا کی تاریخ انتہائی اس وقت اہم موڑ پر ہے جب سے ڈونلڈ ٹرپ صدر منتخب ہوئے ہیں۔ پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تاریخ اور عالمی مالیاتی نظام انخطاط کی جانب گامزن ہے۔سیاسی ماہرین میں ایک بحث چلاکرتی تھی کہ دنیا میں ایک عالمی طاقت(uni polar) کے ہونے سے زیادہ امن ہوتا ہے یا کہ دو عالمی طاقتیں ( Bi- Polar)ہوں تو زیادہ امن ہوتا ہے ؟اس بحث میں ایک دلیل ایسی تھی جو یہ ثابت کرتی تھی کہ دو طاقتیں ہوں تو امن تباہ ہو جاتا ہے اس سلسلے میں سرد جنگ کا حوالہ دیا جاتا تھا جس میں روس اور امریکہ کی شکل میں دو عالمی طاقتیں آپس میں برسرپیکار رہیں۔افغانستان ہو یا شام ، خلیج ہو یا ایشا دونوں بڑی طاقتوں نے چھوٹے ممالک کو جنگی میدان سمجھا۔یہ جنگ دوسری عالمی جنگ کے ختم ہوتے ہی شروع ہوگئی ۔اس جنگ کا بنیادی مرکز روس کی جانب سے کمیونزم کے پھیلائو کی نرم سے زیادہ سخت گیر جنگی کوششیں تھیں جبکہ امریکہ اس پھیلائو کو روکنے میں جنگی بنیادوں پر عالمی سطح پر کوششیں کر رہا تھا ۔اس جنگ کو سرد کہنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ دونوں طاقتوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان ایک دوسرے پر براہ راست حملہ کرنے کا آپشن موجود نہیں تھا مگرایک نقطہ بہت اہم ہیوہ یہ کہ آپس میں حملہ نہ کرنے کے علاوہ باقی پوری دنیا میں گھمسان کے معرکے برپا ہوئے۔ویتنام میں امریکہ بیس سال لڑتا رہاجبکہ افغانستان میں روس تقریبا دس سال لڑا۔ دونوں کا مقدر ناکامی ہی ٹھہرا حالانکہ دوسر ی عالمی جنگ میں دونوں ہی فاتح تھے۔ان دو جنگوں کے علاوہ بھی پوری دنیا میں جنگی کیفیت رہیحکومتوں کو بزور طاقت بنانا اور گرانا عام سی بات تھی جبکہ روس تو مشرقی یورپ کے ممالک میں فوج کشی بھی کرتا رہا ۔روس کے ٹوٹنے پر یہ جنگ ختم ہو گئی اور امریکہ واحد عالمی طاقت کے طور دنیا کا تھانیدار بن گیا ۔امریکہ نے نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے اپنی حکمرانی شروع کی تو خیال تھا کہ دنیا میں امن ہوگا مگر یہ بحث بالکل ہی الٹ کر رہ گئی جب امریکہ نے خود ساختہ ”وار آن ٹیررکے نام پر مسلم ممالک کوزیر عتاب کر لیا ۔یہاں ایک پہلو بہت زیادہ قابلِ غور ہیجنگ تو ہمیشہ دو طرفہ ہوتی ہے جبکہ امریکہ کے مقابلے کاتو کوئی تھا ہی نہیں اس لئے اس جنگ کو وار آن ٹیرر کی بجائے War in the name of Terrorمناسب معلوم ہوتا ہے اسی طرح یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ جنگ نہیں تھی تو اس کی نوعیت کی بنا پر اس کا نام دہشت گردی کے خلاف یا دہشت گردی کے نام پر جنگ بھی نہیں بنتا بلکہ اس کو Attack in the name of Terror بنتا ہے۔جیسے عراق پر سب سے پہلے حملہ کیا گیا جو بڑے پیمانے کے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے نام پر کیا گیا مگر عراق کے پاس یہ ہتھیار تھے ہی نہیں۔ اس بات کا اقرار سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے بر ملا کر بھی دیا تھا۔امریکہ کے ایک پروفیسر نے تہذبوں کے ٹکرا کا ایک خود ساختہ تصور پیش کیا تھا۔ عالمی سطح پر اس نظریے کا خوب چرچا کیا گیا ۔اس کے تحت مغرب کو چین اور اسلامی تہذیب سے خطرہ قرار دیا گیا ۔واضح رہے کہ اس وقت چین بھی معاشی طور پر تیسری دنیا کا ملک گنا جاتاتھا۔اسی بہانے کے تحت دنیا کے تقریبا 90 فیصد ممالک کو مسلح مسائل کا شکار کر دیا گیا ۔افغانستان پر امریکی حملہ اور موجودگی کے بعد پاکستان جنگی حملے کی کیفیت میں آگیا بھارت نے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرکے پاکستان کو جنگی صورتحال سے دوچار کردیا ۔پاکستان تیس سال گزرنے کے بعد ابھی تک اس جنگ کی تباہیاں سمیٹ رہا ھے۔ کوئی دن ایسا نہیں ھوتا کہ عام شہریوں کے علاوہ فوجی جوانوں کی شہادتوں کی خبریں نہ ملتی ھوں۔ واضح رہے کہ امریکہ نے یہ سب اقدامات پانچویں نسل کی جنگ کے تحت کئے ۔اسی لئے یہ جنگ غیر اعلانیہ اور مخفی طریقوں سے مسلط کی گئی۔جو ابھی تک جاری ھے۔ سب سے زیادہ نقصان مسلم ممالک ہی کا ہو رہا ۔ جبکہ دہشت گردی کا لیبل بھی مسلمانوں پر ہی تھوپ دیا گیا ۔یہ سب مغربی میڈیا پرلکھنے اور بولنے والوں کی مدد سے کیا گیا ۔آ بیل مجھے مار کے مصداق ان تباہ کن تحریروں میں مسلم لکھاری بھی موجود رہے۔ تاحال پانچویں نسل کی جنگ کی اس سے بڑی مثال نہیں ملتی کہ نقصان اٹھانے والوں ہی کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ھے۔
مامریکی انتظامیہ نے خلیج میکسکو کا نام خلیج امریکہ رکھنے کا اعلان کیا ھے۔گرین لیڈ ہر قبضے کا عندیہ دیا ھے۔ پانامہ کینال پر امریکی کنٹرول کی بات کی ھے۔ ٹرمپ کے ان اقدامات نے پوری دنیا میں خوف و ہراس پیدا کردیا ھے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے پانامہ کینال سے چین کو دور رکھنے کے لئے وزیر خارجہ کو پانامہ بھیجاھے۔ٹرمپ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے بہت مضطرب ہیں اور ہر کام کو آج ہی کرنے کا عزم لئے ھوئے ھیں۔
آج کل اسرائیلی پرائم منسٹر نیتن یاہو امریکہ کے دورے پر ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل کا کہنا ھے کہ ،گھر آئے مہمان کو استقبالی تحفہ صدر ٹرمپ نے ایک ارب ڈالر کا اسلحہ اسرائیل کو دینے کی درخواست منظوری کیلئے امریکی کانگریس (پارلیمان)کو بھیح دی،متوقع کھیپ میں ایک ہزار پاونڈ کے 4700 بم اور بکتربند بلڈوزر شامل ہیں جبکہ مصر اور لبنان کو فلسطینیوں کو اپنے ممالک میں آباد کرنے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ زور دے رہی ہے۔سعودی عرب فلسطینیوں اور مسلمانو ں کی مدد کی بجائے چھ سو بلین ڈالرز کی امریکہ میں سرمایہ کاری کر رہاہے۔خلیجی ممالک تیل ،گیس اور سونے کے ذخائر سے مالا مال ہیں ۔ یہ مسلم اقوام آپس میں سرمایہ کاری کی بجائے ، یورپ اور امریکہ میں سرمایہ لگانا پسند کرتے ہیں۔تہذیب ،جمہوریت اور معاشی جنگ کی اس یلغار میں نئی امریکی انتظامیہ نے طبل جنگ بجا دیاہے۔ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی امریکہ نے کینیڈا اور میکسیکو کے خلاف پچیس فیصد ٹیرف اور چائینہ کے خلاف دس فیصد لگادیا اور آئندہ بھارت کے خلاف ٹیرف اور یورپ کے خلاف بھی ٹیرف کا اعلان کردیا۔ ٹرمپ حکومت کے اس اقدام نے پوری دنیا کی معیشت کو ہلا کے رکھ دیا۔ٹرمپ کے اس اقدام کے بعد میکسکو،اور کینڈا نے جوابی ٹیرف کا اعلان کردیا ھے۔
لیکن ڈیپلومیٹک ذرائع اس تلخی کو کم کرنے کی کوشش میں ھیں ۔ کینڈا اور میکسیکو نے اپنے اپنے بارڈرز پر دس ہزار ٹروپ تعینات کئے تاکہ ڈرگز اور الیگل افراد کا امریکہ میں داخلہ بند ھوسکے۔کینڈا اور میسکسیکو سے مذاکرات کے بعد امریکی انتظامیہ شائد اس میں نرمی کا عندیہ دیاہے۔چائنہ نے بھی جوابی حکمت عملی کے تحت کچھ چیزوں پر ٹیرف لگانے کی بات کی ہے۔فی الحال چین نے ابھی تک محتاط رویہ اپنا رکھا ہے۔چائینہ بات چیت کے ذریعہ یہ مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے۔ کوئی محاذ نہیں کھولنا چاہتا۔ امریکہ ،چائنیز پراڈکٹس کی بہت بڑی مارکیٹ ہے جس میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی، کاروں کے سپئیر پارٹس،کنسٹرکشن، گارمنٹس، کھلونے، بچوں کی کھیلوں کا سامان، ویڈیو گیمز، کھانے پینے کی اشیا، فش، ہاس ہولڈ آیٹمز،فرنیچر،
الیکٹرانکس،آرٹیفیشل جیولری، وغیرہ
ہزاروں چائنیز پراڈکٹس امریکہ امپورٹ کرتا ھے۔
اس بات میں اب کوئی دوسری رائے نہیں کہ چین کی سربراہی میں ایشیا کا ایک بلاک بنتا نظر آرہا ہے۔اگرچہ اس بلاک میں چین کے ساتھ روس کے علاوہ کوئی بڑی طاقت نہیں ہے مگر پاکستان ترکی اور ایران ،بھارت کی شکل میں درمیانے درجے کی طاقتیں ضرور موجود ہیں ۔سب سے اہم بات یہ ہے کی ان ممالک میں اب امن قائم ہو رہا ہے اور خوشحالی کی امید بننے لگی ہے۔اب بجا طور تہذیبوں کے ٹکرائو کے نظریہ کی ایک بات وقت گزرنے کے بعد درست معلوم ہو رہی ہے کہ اب مغربی تہذیب کا تصادم چین کی تہذیب کے ساتھ شروع ہو چکا ہے ۔چین مشرقی تہذیب کا علمبردار ہے اور چین والے اس بات پر واضح رائے رکھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ جدیدیت ضرور ہونی چاہیے مگر وہ کہتے ہیں کہ ماڈرن ہونے کا مطلب مغربی ہونا ہر گز نہیں ہے۔اسی لئے چین اپنے ملک میں اپنے کلچر کوہر طرح کے غیر ضروری طور مغربی ہونے سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ چرچل نے کمیونزم کو روکنے کے اقدامات کو” لوہے کے پردے سے تشبیہ دی تھیاب چین والے مغربی ثقافتی یلغار کو روکنے کے اپنے اقدامات کو ”بانسوں کا پردہ کہتے ہیں ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب چین اور امریکہ میں جو ہر شعبہ زندگی میں ایک جنگ نما مقابلہ جاری ہے دیکھنا یہ ہے کی اس جنگ کا فاتح کون ہوتا ہے کیونکہ مقابلہ برابری کا ہے تو اس کو مغربی تہذیب یا مغربی کلچر کی یلغار نہیں بلکہ بجا طور تہذیبوں کا تصادم کہا جا سکتا ہے ۔دیکھنے کی بات یہ ہو گی کہ اس Clash of Civilizationsمیں Crash کون کرتا ہے۔تا حال چین فاتح جا رہا ہے جبکہ ماضی میں مغربی تہذیب کا مسلم تہذیب سے تصادم نہیں بلکہ حملہ تھا جو دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے نام پرتھا۔پاکستان موجودہ صورتحال میں کسی کروٹ بیٹھے کی پوزیشن میں نہیں۔ نا کھل کر چین کے ساتھ کھڑے ہوتے نہ امریکہ کے ساتھ۔ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی پالیسی اس نوکر جیسی ھے۔ جس کے گھر دو مالک اور ملازم ھے۔ بات دونوں کی سنتا ھے ۔ آدھی بجا آوری ادھر اور آدھی ادھر کرتا ھے۔ ھماری اس منافقانہ پالیسی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ پاکستان نے مسلم اُمہ کی چودھراہٹ کے سینکڑوں مواقع ضائع کئے ہیں جسکی وجہ سے ان ممالک میں بے وقعت نظر آتے ہیں۔پاکستان کا موجودہ معاشی جنگ اور تہذیبوں کے ٹکرا میں ایک مثبت اور جاندار لیڈرشپ کی ضرور ھے۔ جو عالمی مالیاتی اور معاشی دہشت گردی میں اپنی اہمیت کا ادراک کرسکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here