یہ ایک تاریخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں عدم برداشت معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔جب طاقتور حلقہ اپنی طاقت کے نشہ میں مدہوش ہو کر اپنے اوپر کوئی تنقید برداشت نہیں کرپاتے تو اس کے اثرات نیچے تک جاتے ہیں۔جب چوٹی سے برف پگھلتی ہے تو پانی نیچے ہی جاتا ہے۔جس طرح آتش فشاں جب پھٹتا ہے۔تو لاوا نیچے کی طرف جاکر ہرے بھرے کھیتوں کو راکھ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔اسی طرح عدم برداشت کسی بھی معاشرے کی قدروں کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔مذہبی عدم برداشت تو کافی حد تک بڑھ گیا تھا اب سیاست میں عدم برداشت آخری حدوں کو چھونے لگا ہے۔اس کی تازہ مثال کشمیر میں انتخابی مہم کے دوران واضع ہو رہی ہے۔مقتدر طاقتور حلقوں نے تو غداری کی سندیں کافی عرصے سے تقسیم کرنا شروع کی ہوئی تھیں۔غداری کا الزام لگانے کی رسم کی انتہا تو یہ ہوئی تھی کہ مادر ملت اور قائداعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کے متعلق پاکستان کے پہلے آمر جنرل ایوب نے کہا کہ وہ غدار ہی نہیں ۔ہندوستان اور امریکا کی ایجنٹ ہیں اور اس نامراد جنرل کو شرم تک نہیں آئی کہ وہ یہ باتیں مادر ملت یعنی قوم کی ماں کے متعلق کہہ رہا ہے۔پھر آئی جی آئی کی تشکیل کے بعد کفر کے فتوے شروع ہوگئے کہ شیعہ کافر، وھابی کافر اور دیوبندی کافر وغیرہ وغیرہ، ترقی پسندی پر بھی کافرانہ سوچ کا الزام لگ گیا۔حالانکہ اگر اس حقیقت کو پرکھا جائے کہ دنیا میں ہر انسان کی سوچ الگ ہوتی ہے ہاتھوں کی لکیریں الگ ہوتی ہیں۔جنہیں فنگر پرنٹس کہا جاتا ہے۔سیاسی ،سماجی اور مذہبی نظریات الگ ہوتے ہیں۔آپ کو مکمل حق ہونا چاہئے کہ آپ اپنی بات کا اظہار کرسکیں ،اپنے طور پر اپنے اپنے طریقہ سے عبادت کرسکیں اگر محض آپ کی سوچ کی پیروی نہیں کرنے کو بنیاد بنا کر کسی کو نہ تو جیل میں ڈالنا چاہئے کسی کا اس بنیاد پر قتل تو گناہ عظیم ہے جس اللہ پاک کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی عفو درگزر کی ہدایت کرتا ہے جس پیغمبر کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںوہ تو عفو ودرگزر کی مثال تھے لیکن اب ہماری انائیں اتنی بڑھ چکیں ہیں کہ اسکے بوجھ تلے ہم زندہ درگور ہوئے جارہے ہیں۔
اگر اس معاشرے میں عفو ودرگزر نہیں رہگا تو تباہی اور بربادی سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا۔تحریک انصاف کو یہ سبقت حاصل تھی کہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت ہے لیکن جتنا قلیل دور حکومت میں تحریک انصاف نے مایوس کیا ہے اتنا آج تک کسی سیاسی جماعت نے اپنے ادوار میں نہیں کیا۔معاشرے کی رہی سہی اقدار میں جو انحطات اس دور حکومت میں آیا اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔انصاف کے منشور لانے والی جماعت نے جس طرح انصاف اور عدالتوں کا بدترین حشر کیا وہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔دوسری طرف پاکستان میں بھی دوسرے ممالک کی طرح کرونا وائرس کی ایک قسم ڈیلٹا وائرس نے حملہ کردیا ہے۔لوگ بیمار ہو رہے ہیں ہسپتالوں میں اس وائرس کے مریض بڑی تعداد میں آنا شروع ہوگئے ہیں۔اموات میں بھی بتدریح اضافہ ہو رہا ہے۔احتیاطی تدابیر بشمول ماسک اور سماجی فاصلہ دوبارہ اختیار کرنا پڑیگا ورنہ ماہرین کا کہنا ہے ڈیلٹا کرونا وائرس سے بھی خوفناک ثابت ہوگا۔اسلئے بھی کہ اس مرض کا شکار ہونے والوں میں بچے، نوجوان اور30سے40سالہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہے۔احتیاطی تدابیر کو دوبارہ اپنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں،عید میں گلے کیا ملنے دیگی۔رسم بھی اس بیماری کو پھیلنے میں ہے۔
٭٭٭