سرفراز بزمی کا تعلق سوائی مادھو پور راجستھان انڈیا سے ہے۔ آپ کا کلام واٹس ایپ پر پوسٹ ہوتا ہے اور میں ان کے کلام کی پختگی اور بے باکی کا معترف ہوں۔ ان کی شاعری کی دوسری کتاب زیرِ اشاعت ہے۔ یہ ان کی محبت ہے کہ انہوں نے اس کتاب پر میری رائے کی فرمائش کی ہے اور مسودہ کی pdf ارسال کی ہے۔ کتاب میں حمد و نعت کے علاوہ منظومات اور غزلیات ہیں، آپ بنیادی طور پر مذہبی رجحان آتشِ ایمان اور متاعِ ایقان کے شاعر ہیں، آپ کی نظمیں نہایت انقلابی اور اصلاحی ہیں تو دیکھ لینا ،نقار انقلاب ہے، نظامِ عدل کی بے حرمتی پر تازیانہ ہے۔ جنابِ مختار نقوی کے نام نظم میں اسے وزیرِاعظم بھارت نریندرا مودی کا حاشیہ بردار اور امتِ مسلمہ کا غدار قرار دیتے ہیں جو بڑی دلیری کی بات ہے کیونکہ مودی کی آمرانہ اور فاسقانہ حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا کارے دارد۔ اسی طرح ایک اور نظم بعنوان اجالے کی طرف آنے میں بھارت کے مسلمانوں کو اپنے انسانی اور آئینی حقوق کے حصول کی دعوت دے رہے ہیں۔ آپ پر علامہ اقبال کی انقلابی اور اصلاحی شاعری کے گہرے اثرات ہیں۔ علامہ اقبال پر ایک طویل نظم شاملِ کتاب ہے جو نہایت فکر انگیز اور دل آویز ہے۔ ہائے رام نظم میں بھی بھارت میں اقلیتوں پر مظالم کے خلاف سخت احتجاج ہے۔ مسلمانوں پر سیاسی و سماجی جبر ، مذہبی انتہا پسند ی اور عدالتی نظام میں عصبیت اور مسلمان دشمنی کو بے نقاب کیا ہے۔ آپ ایک شعر میں لکھتے ہیں!
بے سنایا فیصلہ ہے، بے لکھا آدیش ہے
دیش گاندھی کا نہیں اب گوڈسے کا دیش ہے
آپ نے بھارت میں رہ کر کشمیر کے مسلمانوں پر بھارتی ظلم و ستم پر ایک نظم میں شدید احتجاج کیا ہے۔ لکھتے ہیں!
مسیحا درد کا بیدار بندوقوں سے ہوتا ہے
حصارِجبر پر جب وار بندوقوں سے ہوتا ہے
دریدہ پیر ہن بہنوں کی لاشیں دیکھنے والو
تمہارے کرب کا اظہار بندوقوں سے ہوتا ہے
سرفراز بزمی انسانی حقوق کے شاعر ہیں۔ ظلم کہیں بھی ہو وہ ماہیِ بے آب اور مرغِ بسمل کی طرح تڑپ جاتے ہیں۔ وہ شاعرِزندہ ضمیر ہیں۔ بقولِ مرزا غالب!
صادق ہوں اپنے قول کا غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
میں میری شاعری کی کتاب شعل کشمیر شائع ہوئی تھی جو فارسی، اردو، کشمیری اور پنجابی زبان پر مشتمل تھی اور جس میں نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کی داستانِ الم ناک بیان کی گئی ہے۔ بزمی صاحب کے کشمیر پر اشعار ان کی آزادء انسان اور انسانی حقوق سے دلبستگی اور وابستگی کی دلیل ہے۔ سرفراز بزمی کی شاعری بت گری نہیں آدم گری ہے۔ آپ کی شاعری بامقصد شاعری ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا!
شعر را مقصود اگر آدم گریست
شاعری ہم وارثِ پیمبریست
جہاں تک سرفراز بزمی صاحب کی غزلیات کا تعلق ہے وہ پرسوز اور فکر انگیز ہیں۔ کلاسیکل رنگ و آہنگ میں اساتذہ کی طرز میں رومانوی جذبات سے لبریز اور جنوں انگیز ہیں۔ زیادہ طرحی غزلیات ہیں لیکن اِس آورد میں بھی آمد کی طلاطم خیزیاں نمایاں ہیں۔ زبان سادہ و سلیس ہے۔ آپ قادرالکلام شاعر ہیں۔ فیض احمد فیض کی مشہور غزل جس کا مصرع ہے ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے پر طرحی کامیاب غزل کہی ہے –
طرحی مشاعروں میں اِتنی کامیاب غزلیں کہنا اور دادِسخن سمیٹنا ایسے ہی ہے جیسے غالب نے کہا تھا
ما نبودیم بدین مرتبہ راضی غالب
شعر خود خواہشِ آن کرد کہ گردد فنِ ما
آپ کی شاعری میں خودی، عزتِ نفس ، قومی حمیت ، عدل و انصاف ،آزادی، انسانیت اور رواداری کا درس ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں جو ان کی شاعری کے نمایندگی کرتے ہیں
مجھ سے دیکھے نہ گئے دیر و حرم کے انداز
مجھ سے مانی نہ گئی جبہ و دستار کی بات
یاد آ جاتا ہے بزمی تیرا اندازِ سخن
ڈر کے ماحول میں اور جراتِ اظہار کی بات
غلاموں میں اگر ذوقِ جنوں بیدار ہو جائے
حصارِ جبر یکسر ریت کی دیوار ہو جائے
آدمی جب کوئی نظروں سے اتر جاتا ہے
زندہ ہوتا ہے مگر اصل میں مر جاتا ہے
سر بچاتا ہوں تو گرتی ہے زمیں پر دستار
اور دستار بچاتا ہوں تو سر جاتا ہے
بزمی صاحب واقعی صاحبِ بزم ہیں اور ان کی بزمِ سخن میں تشگانِ باد سخن کا ہجوم رہتا ہے۔ بقولِ حافظ شیرازی
ما در پیالہ عکسِ رخِ یار دیدہ ایم
ای بی خبر ز لذتِ شربِ مدام ِ ما
٭٭٭