کچھ عرصہ سے پاکستان میں کچھ ایسی ریت بنتی جارہی ہے کہ جو بھی انتخابات میں ہارتا ہے وہ دھاندلی کا واویلا کرتا جس پارٹی کو شکست نظر آتی ہے وہ پہلے سے ہی شور مچا دیتی ہے کہ انتخابات میں گڑ بڑ ہونے جارہی ہے یا ہو رہی ہے یا ہوچکی ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تھوڑا بہت حصہ ایسی گڑ بڑ میں اپنی پسند کا مصالحہ ڈال کر ذائقہ بدل دیتی ہے۔تیسری دنیا کہ ممالک میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے کچھ ممالک کو چھوڑ کر تمام ممالک ایسی مرضی میں مبتلا ہیں اسلئے پاکستان کی بھی تمام سیاسی جماعتیں اس حقیقت سے مکمل آگاہی رکھتی ہیں لیکن جب ملک طاقتیں یہ فیصلہ کرلیتی ہیں کہ کسی یا کچھ جماعتیں جو انکی بات نہیں مان رہی ہیں یا ان سے نبزد آزما ہیں تو پھر انکے خلاف اپنا اثررسوخ استعمال کر کے انکی سیاسی طاقت کو کم کردیتی ہیںلیکن اگر کوئی جماعت بہت زیادہ مقبولیت رکھتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ بھی بے بس ہوجاتی ہے جیسا کہ 70ء کے انتخابات میں شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو کی فتح کے سامنے اسٹیبلشمنٹ کا بے بس ہوجانا تھا۔جب عوامی ریلا آتا ہے تو کوئی رکاوٹ اس کا راستہ روک نہیں پاتی لیکن ایسی صورتحال کبھی کبھی ہی رونما ہوتی ہے اور اس کا پس منظر پہلے سے بننا شروع ہوجاتا ہے۔عوامی طاقت کو اکٹھا کرنا کوئی معمولی کام نہیں اس کے لئے ایک منجھا ہوا سیاسی رہنما جسکی بات میں اثر ہو اور قول وفعل میں تضاد نہیں ہو جسکے دل میں عوام کے درد کا احساس ہو وہی کرسکتا ہے یا کام کوئی مداری یا منافق نہیں کرسکتا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جو سیاسی رہنما ہے مطالبہ کرے کہ یا میرے مخالفوں کو اقتدار سے باہر کرو اور مجھے اقتدار میں لے آئو یا مارشل لا لگا دو!! وہ کیسے جمہوریت کی پاسداری کا دعوہ کرسکتا ہے؟؟یہ ڈرامہ امریکہ جیسی پرانی اور مستقیم جمہوریت میں کھیلا جاچکا ہے جہاں پر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کا پہلا صدر تھا جس نے انتخابی نتائج کو ماننے سے قطعی انکار کرکے فوج کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن کیونکہ امریکی فوج آئین شکنی کا تصور بھی نہیں کرسکتی اسلئے انہوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا اسوقت کے فوجی سپہ سالار جنرل ملی نے کہا کہ ہم نے آئین کی پاسداری کا حلف لیا ہے نہ کسی صدر نہ کسی عہدیدار کے کہنے پر کبھی بھی اپنے حلف سے انحراف نہیں کرسکتے۔یہ ملک وآئین سے وفاداری کی اعلیٰ ترین مثال تھی ہمیں ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی اقدار کو مثال بنا کر انکی تقلید کرنی چاہئے۔روسی صدر پیوٹن کی آمرانہ شخصیت سے مرعوب ٹرمپ کے نصیب میں پھر ذلت ورسوائی ہی آئی اور امریکی عوام نے انہیں بری طرح شکست دیکر اقتدار سے الگ کردیا وہ آج تک 2020ء کے انتخابات میں دھاندلی کا رونا رو رہا ہے لیکن دن بدن اس کی مقبولیت میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ٹرمپ نے بھی مختصر سیاسی عہد میں سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال کیا اور جوش میں آکر غلط استعمال کیا مجبوراً ٹوئٹر کو انہیں اپنے اکائونٹ سے محروم کردیا گیا۔اور پھر انکی مقبولیت کا گراف جھاگ کی طرح بیٹھتا چلا گیا اب بھی ٹرمپ کا منشور یہی ہے کہ اگر میں جیت جائونگا تو انتخابات صحیح ہیں ورنہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہوگی۔افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں پہلے تو ٹرمپ کا ایک ہی دوست تھا عمران خان لیکن اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے چاہنے والے متحدہ جے یو آئی اور دوسری چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں بھی گھس کر آگئے ہیں۔لیکن بطور سیاست کے ایک ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ ”میں نہ مانوں”کی سیاست زیادہ پائیدار نہیں عمران خان تو ویسے بھی اپنی زندگی اور سیاسی زندگی کی آخری اننگ کھیل رہے ہیں لیکن دوسری جماعتوں کو یہ بات بخوبی جان لینی چاہئے کہ انتخابات کو متنازعہ بنا کر وہ خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہے ہیں اور اس طرح انکا سیاسی مستقبل تاریک ہوسکتا ہے۔
جیتنے والی سیاسی جماعتیں بھی زیادہ بغلیں نہ بجائیں کیونکہ انہیں بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ انتخابات انکے لئے آخری موقعہ ہے عوام کیلئے کچھ کر دکھانے کا اس کے بعد عوام انکے گھروں میں گھس کے انکے سروں پر جوتیاں مارینگی۔بلدیاتی انتخابات میں جیتنے والی جماعتیں سمجھ لیں کہ ان انتخابات کے نتیجے میں ملنے والی فتح انکی انٹری ٹیسٹ ہے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کیلئے اگر انہوں نے پھر بھی عوامی مسائل حل نہیں کئے تو بڑے انتخابات میں شکست انکا مقصد ہے، عمران خان بال ہاتھ میں تھامے انکے کریز میں آنے کا انتظار کر رہا ہے۔اگر بلدیاتی انتخابات میں فاتح بیٹوں اور بھتیجوں نے عوام کے کام نہیں کئے تو چچا اور ماموں کی وہ ٹھکائی ہوگی کہ ہندوستان تک چیخیں لوگ سنیں گے۔سندھی میں کہتے ہیں”رڑیوں راج پتندو”۔
٭٭٭٭