محترم قارئین! اللہ تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے، ہر وہ جو زمین میں رہتا ہے، وہ فانی ہے، مزید فرمایا کہ ہر شے ہلاک ہونے والی ہے”، مزید فرمایا: ہر ذی روح نے موت کوچکھنا ہے” ان فرمانین کی تفسیر وتوضیح سے پہلے تمہیدی گفتگو ملاحظہ ہو۔ اس دارفانی میں جو بھی آیا ہے اس نے ایک دن جانا ہی ہے مگر وہ مالک الملک جب کسی کو یہاں بھیجتا ہے تو پوچھتا نہیں کہ جائو گے یا نہیں اور جب بلاتا ہے تو بھی نہیں پوچھتا کہ آئو گے یا نہیں بلکہ جب چاہے، جہاں چاہے، بلا لیتا ہے۔ جب بھیجتا تو بے شک وہ روتا رہے۔ بھیج دیتا ہے کیونکہ رونا خوشی کی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ اس لئے روتا ہے کہ ایک جہان سے جہاں گناہ کا تصور تک نہیں تھا بلکہ پاک روحیں تھیں اور اب اس جہان سے آگیا ہوں جو سراسر گناہوں کا مرکز ہے۔ میرا کیا بنے گا؟ مگر اللہ تعالیٰ اس کے رونے کو نہیں دیکھتا بلکہ اپنی حکمت کو دیکھتا ہے اسی طرح جب بلاتا ہے تو پھر بھی نہیں پوچھتا کہ آئو گے یا نہیں آئو گے بلکہ وہ بلا پوچھے بلا لیتا ہے۔ اگر وہ بندوں سے پوچھ لے تو کوئی شخص بھی مرنے کو تیار نہیں ہوگا۔ ہاں صرف انبیاء کرام علیھم السلام وہ نفوس قدسیہ ہیں جب اس کا پیغام ملے تو تیار ہوجاتے ہیں اور ذرا لیت ولعل نہیں کرتے۔ جیسے کہ ایک مرتبہ حضرت ملک الموت علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ سلام عرض کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: کیسے آئو ہو؟ عرض کی آپ کی جان قبض کرنے کے لئے، فرمایا: مجھے جانتے ہو میں کون ہوں؟ عرض کی خلیل اللہ فرمایا: خلیل کا معنی جانتے ہو؟ عرض کی جانتا ہوں ، فرمایا پھر کوئی دوست بھی دوست کو مارتا ہے؟ جائو رب سے پوچھ کے آئو، چنانچہ خداوند قدوس کے دربار میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یااللہ تیرا خلیل یہ کہتا ہے کہ میں خلیل خدا ہوں، کوئی یار، یار کو بھی مارتا ہے؟ فرمایا: وہ ٹھیک کہتے ہیں، ان سے کہو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی دوست بلائے کوئی دوست انکار بھی کرتا ہے؟ یہ پیغام سنتے یہ فرمایا لیں میں تیار ہوں۔ اسی ایک دفعہ حضرت آقائے دو عالمۖ نے مجمع صحابہ میں کہا کہ اللہ نے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ وہ زمین پر رہے یا اللہ کے پاس چلا جائے تو اس بندے نے خدا کے پاس جانے کو قبول کر لیا ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ صحابہ نے پوچھا: صدیق! اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ بندہ جس کو جانے نہ جانے کا اختیار ملا ہے وہ حضور پاکۖ ہی ہیں۔ اب بہت جلدی حضورۖ ہم کو داغ مفارقت دیں گے۔ چنانچہ اس کے بعد آپ نے جلد ہی وصال باکمال فرمایا: اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بات پوری ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیھم السلام کے علاوہ کسی کو اختیار نہیں دیا۔ اوپر مذکور آیات طیبات کے ترجمہ کی تشریح ہر وجود جو زمین پر ہے وہ فانی ہے۔ من کا معنیٰ شخص ذوی العقول بنتا ہے۔ علیھا میں ھا کا مرجع”الارض” یعنی زمین ہے۔ مگر من کو عام کریں ذوی العقول اور غیر ذوی العقول جمع کرلیں تو بھی جو چیزیں زمین پر ہیں۔ وہ فانی ہیں مگر جو مخلوق فضاء و ہوا میں رہنے والی ہے۔ یا آسمانی مخلوق اس میں شامل نہیں۔ اس کی چونکہ وضاحت نہ تھی فرمایا: ”کل نفس ذائقتہ الموت” ہر ذی روح چیز نے موت کو چکھنا ہے۔ یعنی خواہ وہ چیز ذی روح زمین پر ہو یا آسمان پر خواہ فضا میں ہو خواہ عرش پر جہاں کہیں بھی وہ فنا ہونے والی اور موت کو چکھنے والی ہے۔ موت کو چکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک کی موت یکساں نہیں۔ جیسے ہانڈی کے چکھنے کا انداز مختلف ہے۔ کوئی انگلی سے چکھ لیتا ہے، کوئی تھوڑا سا شوربا اور بوٹی نکال کر چکھ لیتا ہے۔ ولی بھی چکھتا ہے، شہید بھی چکھتا ہے اور مئومن بھی اور کافر بھی ہر ایک کا اپنا اپنا انداز ہے۔ انبیا علیھم الصلواة والسلام اور شھداء علیھم الرضوان صرف چکھنے ہیں۔ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
انبیا کو موت آنی ہے فقط آنی ہے۔۔پھر ان کی حیات جاو دانی ہے مگر کل نفس والے فرمان میں ذی روح چیزیں شامل ہیں۔ غیر ذی روح کا بیان پھر باقی تھا۔ تو فرمایا کل شی ھالک کہ ہر شے فانی ہے۔ یہ سب چیزیں اللہ جل جلالہ کے سوا ہیں۔ کیونکہ وہ باقی ہے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ یہاں پر ہلاک معنٰی باہی بربادی نہیں بلکہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں بندہ ہلاک ہوگیا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حالت حیات سے حالت موت کی طرف چلا گیا۔ نہ کہ وہ نیست ونابود ہوگیا اسی طرح یہ مراد ہرگز نہیں کہ جنت فنا ہوجائے گی۔ نیست ونابود ہوجائے گی بلکہ ایک حالت میں سے دوسری حالت میں بدل جائے گی۔ پہلے بھی جنت بڑی خوبصورت بنی سنوری ہوئی ہے۔ پھر خداوند قدوس نئے انداز سے جنت کو بنا سنوار کر اپنے برگزیرہ بندوں پر پیش فرمائے گا۔ معلوا ہوا ہر شے بدل دی جائے گی کوئی شے بھی اپنی پہلی شکل وہیت پر نہیں ہوگی۔ بس سب لوگوں پر لازم ہے کہ مسلمان ہو کر قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں اور نبیۖ سے والہانہ عشق ومحبت رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ بالخیر بالایمان عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭
- Article
- مفسر قرآن حضرت مولانا مفتی لیاقت علی خطیب مرکزی سنی رضوی جامع مسجد جرسی سٹی، نیو جرسی یو ایس اے