قارئین وطن! یومِ آزادی اگست میرے مرشد ثانی حضرت فیض احمد فیض نے خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے جبر سے بھر پور حکومت کے خلاف خود بھی اور اپنی کمزور عوام کو دعا کی اپیل کی ہے۔ میں پاکستان کے دو حصہ تھے مشرقی اور مغربی اور آبادی تھی گیارہ کروڑ آج پاکستان صرف مغربی حصہ پر محیط ہے اور آبادی کروڑ ہے مرشد ثانی کا انداز دعا !!
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی محبت ، کوئی خدا یاد نہیں
آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہر اِمروز میں شیرینی فردا بھر دے
وہ جنہیں تابِ گراں بارئِ ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے
جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کر دے
جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کر دے
جن کا دیں پیرویِ کِذب و ریا ہے ان کو
ہمت کفر ملے، جراتِ تحقیق ملے
جن کے سر منتظرِ تیغ ِ جفا ہیں ان کو
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
عشق کا سرِ نہاں جانِ تپاں ہے جس سے
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے
حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے
قارئین وطن ! یہ تھی میرے مرشد ثانی کی اپنے رب کے حضور دعا جب ایوبی جبر کا دور اپنے عروج پر تھا پٹرول تین روپے گیلن تھا ڈالر ساڑے تین روپے ہوتا تھا دیسی گھی میں سالن پکتا تھا آلو پیاز دال چاول اور روز مرہ کی اشیا پر ہر شخص کی دسترس میں تھی صرف ایک چیز نہیں تھی وہ تھی سیاسی گھٹن جس سے تنگ آ کر مرشد نے ہوا کے تازہ جھونکے کے لئے خود اور قوم سے دعا کے لئیے ہاتھ اٹھوائے یہ وہ ہی ایوب خان تھا جب میں بھارت نے پاکستان کی سوئی ہوئی قوم پر رات کو جب حملہ کیا چٹاگانگ سے لے کر خیبر تک ایوب خان زندہ باد کے نعرے لگائے اور جب اس نے قوم پر سیاسی گھٹن کا لیول بھڑکایا تو قوم نے ایوب کتا کتا کے نعرے لگائے لیکن وہ پھر بھی حکومت پر قابض رہا پھر اس کا کمانڈر ان چیف جرنل یحیٰ خان نے فٹ دو انچ جرنل سے پستول کے زور پر اقتدار چھینا اور ایک دور ختم ہو۔
قارئین وطن! مرشد ثانی کی طویل دعا جس کا ایک ایک لفظ آج بھی دن کی روشنی کی طرح زندہ ہے اور ہاتھ اٹھا کر مانگتے ہیں کہ ہماری راتوں میں کوئی شمع منور کر دے تو جس دور میں ہم بظاہر زندہ نظر آتے ہیں جبکہ پوری قوم مر چکی ہے صرف ایک شخص کے ہاتھوں اس کا نام جرنل قمر باجوہ ہے جو ہماری سلامتی کا واحد ذمہ دار ہے جس نے پی ایم اے میں پاکستان کو اندرونی اور بیرونی حملوں ، سازشوں سے اپنی جان پر کھیل کر ملک کی حفاظت کرنے کی قسم کھائی ہے لیکن اس نے اپنے حلف کی نافرمانی کرتے ہوئے اس عمران خان کی امریکہ اور اس کے کارپردازوں سے مل کر حکومت ایک ایسی شطرنج کی بساط بچھا کر جس کو ووٹ آف نو کانفیڈنس کہتے ہیں کو چلتا کیا اور اپنی ڈنڈی کے زور پر چوروں اور خائین مجرموں کی حکومت بنا ڈالی ۔ جرنل باجوہ کی غداری کو دیکھتے ہوئے آج فیض احمد فیض زندہ تو نہیں ہے قوم کو ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے لئیے کہنے والیلیکن انور مقصود زندہ ہے جس نے بڑے خوش و خضو سے اپنے رب کے حضور دعا مانگی کہ یا اللہ ہماری حفاظت کرنے والوں سے ہماری حفاظت فرما آمین صم آمین ، آمین صم آمین انور مقصود کی یہ مختصر دعا فیض احمد فیض کی طویل دعا جتنا اثر رکھتی ہے بس اس دعا کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ فوج تو ریاست کا ایک ایسا آرگن ہے جس کی مظبوتی اور طاقت کے لئے اپنی ہڈیوں کو بیچ کر قوم پورا کرتی ہے تاکہ وہ دشمن کے سامنے سرخ رو ہو اور اس کے بدلے قوم اپنی عسکری طاقت سے کیا مانگتی ہے اپنی سرحدوں اور نظریات کی حفاظت لیکن بدقسمتی سے میر سپاہ تو خود قوم کے اور اور اس کی حکومت جس کی پاسداری اس کا اولین فرض ہے کے خلاف غداری جیسے جرم میں مرتکب ہوا ہے شیم شیم شیم ۔
قارئین وطن!آج پاکستان کی ہر حکومتی شاخ پر آلوں کا بسیرا ہے جس نے مہنگائی کی رسی سے ہمارے گلوں میں پھندا ڈالا ہوا ہے ۔ نہ گاڑی چلتی ہے نہ بجلی جلتی ہے نہ ہانڈی پکتی ہے غریب کے منہ سے نکلتی ہے تو صرف بددعا نکلتی ہے کچھ عزیزوں سے بات ہو رہی تھی سب کا کہنا تھا کہ ہماری بربادی کا ذمہ دار جرنل قمر جاوید باجوہ ہے اور سب نے کہا کہ خدا کے واسطے فوج کو اس کی نحوست سے بچالو کہیں اس کی مزید موجودگی ہندں کے دست کرم پر نہ چھوڑ دے اور پھر ہم بیرسٹر اعتزاز کی طرح کہتے پھریں کہ لاہور تو پہلے بھی لاہور تھا اور کی ایک ایک ماں بہن اور بچیوں کی قربانی رائیگاں چلی جائے ۔ آو پھر سے انور مقصود کے ساتھ مل کر یا اللہ سے دعا کریں کے اے اللہ ہماری حفاظت کر نے والوں سے ہماری حفاظت فرما آمین ۔
٭٭٭