حضرت ایوب انصاری کے مزار اور اس سے منسلک مسجد پر نظر پی رقلت طارق ہوگئی۔یہاں حضور صلعم کے میزبان دفن ہیں۔ترکی والوں نے انکا نام عربی سے رومن میں لکھا ہے(EYUP SULTAN)یہ کام ترکی کے قائداعظم اتاترک(کمال پاشا) کر گئے تھے۔اور ہم ہر طرف اسی رومن الفاظوں میں ترکی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ہم سمجھے وہ دنیا سے کٹے ہوئے ہیں لیکن انکا کہنا ہے ہمیں مغرب کی ضرورت نہیں اور ترکی کے تیرہ شہروں میں ہائی ویز سے سفر کرکے دھچکا لگا کہ مغرب نے خود کو کتنا بدصورت کر رکھا ہے۔پورا ترکی خوبصورت ہے اور حکومت نے عوام کی مدد سے اسے جنت بنا دیا ہے۔پورا ترکی جنت کا نظارہ تھا پورا ملک پہاڑوں اور وادیوں میں پھیلا ہوا ہے اور ان بنجر دشوار راستوں کو ترکوں نے دن رات بغیر کسی بیرونی مدد کے خوبصورت ترین ملک بنا دیا ہے(سوائے350میل کو نیا سے انقرہ ہائی ویز اور لٹکے ہوئے طویل پل کے )بات حضرت ایوب انصاری کے مزار کی ہو رہی تھی جس کا دروازہ بند ہو رہا تھا، ایک خاکروب نے دیکھا ہم دیر سے آئے ہیں وہ بھاگا بھاگا آیا ہم چونک پڑے البا پاکستانی؟”ہم نے سر ہلایا سمجھ نہ آیا کہ لیس کہیں یا ہاں کہیں صرف شکرا” کہا وہ ہمیں اندر لے گیااور ہم نے سونے کی طرح چمکتی ہوئی جالی کے پیچھے آنحضرت کی قبر مبارک کو دیکھا۔کیسے ہونگے وہ جنہیں حضور اکرم ۖکی صحبت ملی۔آپ استنبول میں کہیں ٹہرے ہوں بس کے ذریعے یا ٹیکسی کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں ان کے لئے حکومت عثمانیہ کے دل میں اتنی عزت اور احترام تھا کہ انہیں یہاں دفنایا گیا تھا۔قسطنطنیہ کی فتح کے بعد(قسطنطینہ کا نام اب استنبول ہے)یہ13ویں صدی کی بات ہے۔یہ عثمان(جس کی سیریل آپ دیکھ رہے ہیں)جس کے1453میں فتح حاصل کی تھی یہ محمد(MEHMED)کا کارنامہ ہے۔جس نے قسطنطنیہ کو اس قدر خوبصورت رنگ دیا یا پھر حضرت ایوب انصاری کی ہجرت تھی جس کی برکت اور دعائوں سے ایک عالیشاں شہر ابھرا جس کا تھوڑا حصہ یورپ میں اور پورا ترکی ایشیا میں پھیلا ہوا ہے ،مغرب سے مشرق ایران تک، صرف ترکی کے استنبول ہی پر ایک پوری کتاب لکھ سکتے ہیں۔بس ایک بات کہ استنبول کی ٹریفک خدا کی پناہ۔استنبول کو ایشیا سے جوڑنے کے لئے پلوں، زمین دوز(باسفورس کے نیچے)میٹرو ٹہرام اور فیریز کا سہارا لیا گیا ہے۔رات بہت ہو رہی تھی ہم نے فاتحہ پڑھی اور دربان کے اشارے سے باہر نکل آئے عرصہ دراز کی خواہش پوری ہوئی۔مکہ معظمہ کے بعد یہ ہماری دوسری بڑی خواہش تھی۔باہر پھیلے ہوئے میدان میں آئے سامنے بہت ہی بڑا فوارہ پانی بہت اوپر تک اچھال رہا تھا۔استنبول میں ہر تنصیب کام کرتی نظر آئی نئی اور13صدی کی اور شاباشی ترکوں کو کہ اس کی مرمت اور صفائی کرتے رہتے ہیں۔باہر شامی بچوں اور عورتوں نے گھیر لیا۔بیگم سے کہا5,5لیرے دے دو زیادہ نہ تھے دل کو اطمینان ہوا اور مغرب کے کھیل کی زد میں آئے ان بے گناہ لوگوں پر افسوس ہوا یہ بڑی طاقتیں کب تکISISاور داعش کی آڑ میں یہ گھنائونا گیم کھیلتی رہینگی اور اسرائیل کو آگے بڑھنے میں مدد دیتی رہینگی اور کب تک امریکہ کی بیرونی پالیسی اسرائیل بناتا رہے گا۔خدا جانتا ہے لیکن یہ جنگ ہے کبھی مسلمانوں نے باز لطینیوں کو مار بھگا یا قبضہ کیا اور اب انکا زور ہے لہٰذا جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، اللہ نے شعور دیا ہے عقل دی ہے صرف اللہ اللہ کرنے سے کام نہیں بنتا جب سپین پر عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا تو بادشاہ قلعہ کی دیوار کے پاس کھڑا ہو رہا تھا۔اسکی ماں نے کہا”رونے کا فائدہ؟ تم بہادری سے نہیں لڑے۔
سپین اور ترکی کی تاریخ ملتی جلتی ہے جہاں مسلمانوں کے خلاف عیسائی اور یہودیوں نے محاذ بنایا ہے۔لیکن اس تاریخ کے بعد اسپین میں دوبارہ عیسائیت کا غلبہ ہوگیا جب کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد(گیلی پولی کی جنگ) کمال اتاترک نے عیسائیوں کے قبضہ سے ترکی کو آزاد کرایا۔اور جب ہم استنبول میں تھے تو اسکا یوم وفات ترک اور احترام کے ساتھ پورے ترکی میں جگہ جگہ اسکی تصویر اور اسکے بنائے لال جھنڈے کو کھمبوں ،عمارتوں کی دیواروں ،گھروں کی کھڑکیوں پر لگا کر کیا گیا تھا ،کمال اتاترک کی وفات10نومبر1938کو ہوئی تھی۔ہم نے14نومبر کو اسکے مزار پر جاکر دیکھا جو5ایکڑ زمین پر ہے اور نئے فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ہر دس منٹ بعد بگل بجا کر اسے خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔سنیچر کا دن تھا لوگوں کا ہجوم تھا عورتیں اور انکے ساتھ ہر عمر کے بچے تھے۔لگتا ہے آئندہ 10سالوں میں ترکی کی آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ سے بڑھ کر13کروڑ ہوسکتی ہے۔وہاں مغرب کی طرح مرد عورت کو بچوں کے بغیر نہیں دیکھا۔اور شاید وہ اپنا ویک اینڈ فیملی کے ساتھ باہر ہی گزارتے ہیں جگہ جگہ پرکشش سیاحوں کے لئے۔سستے اور مہنگے ہوٹلوں کا سلسلہ ہے اور جن کی مدد سے سیاحت کو فروغ مل رہا ہے۔ترکی میں ہم نے کوئی ویران اور اجاڑ جگہ نہیں دیکھی ہر جگہ کونے کونے پر اوپر نیچے پہاڑوں اور ترائی میں مکانات باغات اور اور جھیلوں کا سلسلہ ملے گا۔ہمارے پاس الفاظ کی کمی ہے بیان نہیں کرسکتے ایک بات کا ذکر ہو تو بات سے بات نکلتی ہے۔انقرہ سے استنبول تین لائنوں کا سپرہائی وے(TRANS EUROPEAN MOTORWAY)بل کھاتا ہوا پہاڑوں کے درمیان اوپر نیچے اونچے پہاڑوں کو چیر کر بنائی گئی خندوقوں سے نکلتا خوبصورت ہائی وے ہے جس کے ہر دس میل پر اسٹاپ بنے ہوئے ہیں جہاں ہوٹل، گیس، سٹیشن کارواش اور شاپنگ سنٹر ہیں جہاں ہر قسم کی اشیاء دستیاب ہیں جوں ہی آپ ریستوران میں گھستے ہیں۔ریستوران کا پورہ عملہ خندہ پیشانی سے آپ کی طرف مینو لے کر بڑھتا ہے ہر اشیاء کی قیمتیں لکھی ہوئی ہیں۔اور نہایت سستی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ خریدنے اور کھانے کو دل چاہتا ہے ایک ایسے ہی اسٹاپ پر ہم نے دمبے کی جانب(GRILL)کا آرڈر دیا ساتھ میں مسور کی دال کا سوپ ایک ایک اسپرائٹ چانپ بے حد لذیز تھی بغیر ہیک کے کہ یاد رہے گی جب بل دیا اور کیشئر نے رسید دی غور سے دیکھاا تو کل بل95لیرلے تھا جو دس ڈالر بنتا ہے کاش آرڈر ڈبل کردیتے یہ موقعہ زندگی میں بار بار نہیں آتے پھر ترکوں کو خوش بھی کرنا ہے جو الباکستانیوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔مسور کی دال کا سوپ ہر ریستوران میں ملے گا اور شاید ایک زمانے میں یہ ہی اہم غذاا ہو جو شاید غریب کو میسر نہ ہو۔اور امیر کہتے ہوں۔”یہ منہ اور مسور کی دال ہم یہاں اپنے سفرنامہ کو تمام کرتے ہیں کہ ہمیں ہمارے دوست حسن ظہیر نے فون کرکے حقوق مانگ لئے ہیں شائع کرنے کے۔
٭٭٭