نیویارک میں افریقی تارکین کی بہتات، مساجد ، چرچ بھر گئے

0
112

نیویارک (پاکستان نیوز)بسوں کے ذریعے نیویارک آنے والی افریقی تارکین کی بڑی تعداد مساجد اور چرچوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئی، کئی علاقوں کی مساجد اور چرچ تارکین وطن رہائیشوں سے بھر گئے ہیں، جبکہ حکومت کی جانب سے ان کے لیے مناسب رہائش کا بندوبست نہیں کیا جا رہا ہے ، ٹیکساس کے ری پبلیکن گورنر گریگ ایبٹ کی جانب سے افریقی تارکین کی بڑی تعداد کو ٹیکساس سے نیویارک کے لیے منتقل کیا گیا جس کی بڑی وجہ یہ بتائی گئی کہ نیویارک تارکین وطن کے لیے بہترین مقام ہے، جہاں میئر ایرک ایڈمز کی توسیع کردہ رہائش گاہیں ان کے لیے کافی مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔ٹیکساس کے گورنر کی جانب سے رہائش کے ناکافی انتظامات کی وجہ سے افریقی اور لاطینی امریکہ کے سینکڑوں تارکین کو اپنی رہائش کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے ، جس کی بڑی وجہ نامناسب انتظامات ہیں ۔ ایک تارک وطن نے بتایا کہ سینیگال کے حالات خراب نہیں ہیں،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ اپنی تعلیم مکمل کر لیتے ہیں، تو نوکری ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کی بیوی اور بچے ہیں تو انہیں کھانا کھلانا ایک مسئلہ بن جاتا ہے اسی لیے ہمیں اپنے خاندانوں کی مدد کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کرنا پڑا۔برونکس میں مسجد انصار کے امام عمر نیاس جو کہ ایک سال سے نیویارک شہر میں آنے والوں افریقی تارکین کو پناہ دے رہے ہیں نے بتایا کہ ان کے پاس مسجد میں تقریباً 170 تارکین وطن رہتے تھے ۔ ہجرت کرنے والے گھر کے پچھواڑے اور مسجد میں خیموں میں سوتے ہیں۔ امام عمر انہیں اپنی جیب سے کھانا کھلاتے ہیں اور اپنے گروسری اسٹور سے بھی کھانا فراہم کرتے ہیں۔امام نے بتایا کہ میری جیب اب مزید خرچ برداشت نہیں کر پا رہی ہے، میرا بجلی کا بل پانچ ہزار ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے، جبکہ پانی کا بل 3700ڈالر تک پہنچ گیا ہے، میں اس وقت تین ماہ کا مقروض بن چکا ہوں، انھوں نے مخیر حضرات سے گزارش کی کہ وہ آگے آ کر کار خیر میں حصہ ڈالیں، یا پھر ہمیں تارکین کو شیلٹر فراہم کرنا بند کرنا پڑے گا۔برونکس بورو کے صدر کے دفتر میں افریقی مشاورتی کونسل کی سماجی کمیٹی کی سربراہی کرنے والے امبروز نگنڈے نے تسلیم کیا کہ نیویارک شہر کو اس وقت “پناہ گاہ کا مسئلہ” درپیش ہے، ایک پیش رفت کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ کچھ تارکین وطن کو گرجا گھروں اور مساجد میں کیوں رکھا جا رہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here