نو مئی کے واقعات یقینا قابل مذمت ہے جہاں پاکستان کے ایک قومی ادارے کے وقار کو تباہ کرنے کا سہرا ایک ایسی سیاسی جماعت کے سر جاتا ہے، جن کو سیاسی فوجی صاحبان اپنے سروں پر بیٹھا کر لائے تھے۔ دوسرا پاکستان میں ملٹری ایکٹ پر بھی تنقید زروں پر ہے جس کے مطابق کسی سویلین کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلایا جا سکتا ہے، پاکستان کی سپریم کورٹ میں اس بارے میں ایک درخواست بھی زیر سماعت ہے، مگر درخواست سے زیادہ آئے روز بینچ ٹوٹنے کی باتیں زیر بحث آرہی ہیں۔
اصولی بات کی جائے تو یقینا پاکستان میں ایک ہی قانون ہونا چاہیے جو ہر کسی پر یکساں طور پر لاگو ہو، نظامِ انصاف میں یہ تفریق یا تو ہمیں ختم کرنی چاہیے اور موجودہ یعنی ریاستی عدالتوں کا بھرم قائم رکھنا ہوگا ، دوسری صورت یہی ہے کہ پھر معاشرے کے ہر طبقے کے لیے الگ سے نظام انصاف قائم کرتے ہوئے سب کے لیے اپنی اپنی عدالتیں ہونی چاہئے، فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے مقدمات اگر فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں گے تو سویلین تنصیبات یعنی زرعی زمینوں پر حملہ اور قبضہ کرنے والوں کے مقدمات زرعی عدالتوں، وزیراعظم ہائوس اور پی ٹی وی پر حملہ کرنے والوں کے مقدمات سیاسی عدالتوں، مدارس اور مساجد کے حملہ آوروں کے مقدمات مذہبی عدالتوں میں چلائے جائیں، سب اپنا اپنا قانون بنالیںتاکہ دنیا کو کھل کر پتہ چلے پاکستان میں فلاحی ریاستی نہیں بلکہ جنگل کا قانون نافذ ہوچکا ہے۔
ممکن ہے یہ میری غلط فہمی ہو جو اب بھی یہ تسلیم نہیں کر رہی کہ پاکستان میں تو جنگل کا قانون کئی دہائیوں سے نافذ ہے۔ درحقیقت انہوں نے ملک چلانا تھا وہ ایک دوسرے کے خلاف چالیں چلا رہے ہیں اور یوں وہ آج پاکستان کی منظرکشی کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج تک ہم اپنے نظام انصاف کو اس معیار پر نہیں لا پائے، جہاں انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ آج ہماری عدالتیں عالمی انصاف کی رینکنگ میں جس نمبر پر ہے وہ نمبر بتاتے ہوئے بھی سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان کی بہتری کے لیے تو اب کسی کے پاس سوچنے کا وقت ہی نہیں، اپنی اپنی انا کی جنگ میں سبھی پاکستان کا نقصان کیے جا رہے ہیں جو ایک دن پاکستان کے انہی ناخداں کے سروں پر تاریخی تاج بن کر سجے گا، وقت ہے کہ اب بھی سوچ لیا جائے اور اپنی درست سمت کا تعین کیا جائے۔
٭٭٭