عمران خان کے دور حکومت میں سخت محنت اور ہر مکتبہ فکر سے سے مشاورت کے بعد پرانے بیوروکریٹ اور اس وقت کے وفاقی وزیر تعلیم نے ملک میں بتدریج یکساں تعلیمی نصاب پر ایک گراں قدر پیش رفت کی تھی جس میں ابتدائی طور پر پہلی سے پانچویں کلاس تک یہ سسٹم لاگو ہونا تھا پھر اگلے سال اسے مڈل سکولوں میں رائج ہونا تھا پھر آنے والے سالوں میں سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری تک جانا تھا ،اسی طرح سے سکولوں کی حالت بھی بدلنی تھی مگر اس حکومت کو اتنی مہلت نہ دی گئی کہ کہیں عام عوام کو یہ سہولت بھی میسر نہ ہو جائے کہیں ان عامیوں میں سے کوئی آگے نہ بڑھ جائے لہٰذا اس حکومت کو چلتا کر دیا گیا ،ایچیسن کالج کے گورے پرنسپل نے مقتدر حلقوں کے آگے ہتھیار ڈالنے سے انکار کرتے ہوئے استعفے کا راستہ اپنایا سوچیں کہ اتنا پرانا اور مقتدر حلقوں کے بچوں کو تعلیم دینے والا ادارہ جس کی فیس بارے ایک عام عوام سوچ بھی نہیں سکتی، وہاں کے پرنسپل کا انتظامی بددیانتی کی راہ میں رکاوٹ کے احتجاج کے طور پر استعفیٰ کا آنا بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے، موجودہ وزیر اعظم جب وزریر اعلیٰ پنجاب ہوا کرتے تھے تو انہوں نے دانش سکولوں کی بنیاد ڈالی تھی جہاں عام عوام کے بچوں کو ایک اعلیٰ و عرفہ سکول میں حکومتی خرچ پر اعلیٰ تعلیم دلوانے کا انتظام کیا گیا تھا تو کیا یہی رویہ موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی اپنا پائیں گی جو کہ اسی فیملی سے ہیں کیا سابقہ حکومت کے ایک اچھے اقدام یکساں تعلیمی نصاب کو اپنایا جائے گا یہ سوال تو بعد میں لیکن کیا دانش سکول سسٹم کو بحال اور مزید پھیلانے کا بندوبست موجودہ حکومتی ایجنڈے میں شامل ہے، پاکستان جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے میں ہر کوئی آگے آگے رہتا ہے ہر ایک کی اپنی مسجد بنی ہوئی ہے طبقاتی تقسیم اتنی زیادہ ہے کہ کوئی بھی سوائے کرکٹ کے کسی ایک بات پر متفق نظر نہیں آتا تو کیا ہم اسی طرح سے ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہیں گے ہمیں ایک پیج پر آنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے جس کی ابتدا ہمیں اپنے تعلیمی نظام سے کرنی چاہئے تاکہ عوام کو شعور ملے جس سے ہم آہنگی آئے گی جیسے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں چند کمیٹیاں بنائی ہیں تو کیا ایک کمیٹی اس بارے بھی بنے گی تاکہ اس پر بھی پیش رفت کی جا سکے امریکہ میں رہتے ہوئے یہاں کے تعلیمی نظام کو سٹڈی کرنے کا موقع ملا ہے یہاں کا ہر ہائی سکول ایچیسن کالج کی طرح کام کرتا ہے مگر سکول فیس کی مد میں حکومت مدد کرتی ہے گھروں پر ٹیکس کی صورت میں سکولوں کے اخراجات بھی وصول کر لیے جاتے ہیں ایک الیکٹڈ سکول بورڈ سکولوں کے بجٹ کو استعمال میں لاتا ہے نگرانی کرتا ہے نئی نئی تجاویز بھی مہیا کرتا ہے تعلیم ہی یہاں یہ سب معجزے کروا رہی ہے ،اسی لیے یہ لوگ دنیا کی سپر پاور تصور کئے جاتے ہیں، ٹیکنالوجی کے ساتھ ہر شعبہ میں یہ لوگ کتنا آگے نکل گئے ہیں ان سب کی جانچ کے لیے حکومت پاکستان حکومتی خرچے پر اپنے بیوروکریٹ کی ایک ٹیم صرف اس تعلیمی نظام کی سٹڈی کے لیے یہاں روانہ کر دے بھلے چند لوگوں کو نوازنے کے لیے ہی صحیح ہو سکتا ہے کہ بیوروکریسی میں سے آنے والے دنوں میں کوئی چیمہ، سکھیرا بن جائے۔
٭٭٭