فخر پاکستان،نیوکلیئر ساینسٹٹ ایٹمی پروگرام کے خالق ایک محب وطن پاکستانی حکمرانوں کی سردمہردی اور بے اعتنائی کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ایٹم بم کا خالق تنہائی کے ہاتھوں مارا گیا بیماری کے عالم میں بھی انہیں کوئی دیکھنے نہیں جاتا تھا۔پاکستان کو اس تنہا شخص نے وہ ہتھیار بنا کر دیا کہ فوج کی شان بڑھ گئی کوہ وہ اپنے سے دس گناہ زیادہ بڑے موذی دشمن سے لڑ سکتا ہے یہ ڈاکٹر قدیر خان کا ہی کمال تھا جس پر ہر پاکستانی کو فخر کرنا چاہئے۔اور حکمرانوں کو سبق لینا چاہئے کہ وہ اپنے محسن کو بھلانے میں کسی کی مثال نہیں۔ہم کہینگے رکھتے دل اور نم آنکھوں کے ساتھ کہ اچھا ہوا وہ چلے گئے اس بے حسی ماحول سے نجات ملی کہ ظالمو
اب انہیںڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
اور جب غم اتنا گہرہ ہو الفاظ کم پڑ جاتے ہیں آج یہی حال ہمارا ہے ہم اپنے محسنوں کو بھولنے میں ثانی نہیں رکھتے۔لیاقت علی خاں شہید ملت سے بڑی مثال کہاں ملے گی کہ جن کے نام پر اسلام آباد کا نیا ایئرپورٹ نہیں رکھ سکے اس میں شاید امریکہ سے اجازت کی ضرورت ہوگی اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے کہ ڈر کے مارے سب چھپ گئے تھے کہ امریکہ بہادر کو کو معلوم نہ ہوجائے کہ وہ ڈاکٹرقدیر خان کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ان کے نماز جنازہ میں شریک ہو کر لہذا وزیراعظم عمران خان نے حکم مانا کیس کا؟اسی کا جس نے انہیں کوئٹہ میں بم دھماکے سے ہونے والے شہیدوں کے گھر والوں سے ہمدردی کرنے سے روکا تھا۔کیا عمران خان بزدل ہے یا وہ اپنے اوپر حاوی اتنے بوجھ کو برداشت نہیں کر پا رہا۔ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں ہمیں معلوم ہے انکے جنازے میں جو فیصل مسجد میں ادا کی گئی تھی کئی جنرلز اور کرنلز شامل تھے سوائے باجوہ صاحب کے اور عمران خان کے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہمارا دشمن دیکھ رہا ہے اور ہنس رہا ہے اور شاید کہہ بھی رہا ہے اے بے شرمو، بزدلو شرم کرو ایک تم جس نے اس عظیم انسان اور بڑے سائینسٹٹ کو مار ڈالا۔سوچتے ہوگے خاک کم جہاں پاک اور ایک ہم جس نے اپنے محسن کو جو مسلمان تھا اور ایٹمی پروگرام کا خالق تھا بڑے اعزازات کے ساتھ دفن کیا ہے توپوں کی سلامی کے ساتھ سراج الحق نے کہا حکومت نے قدیر خان سے اچھا سلوک نہیں کیا۔وہ پرویز مشرف کے دور میں نظر بند کر دیئے گئے عزیز اقارب پر ملنے کی پابندی عائد کی گئی۔ہمیں یاد ہے کہ کس ذلت آمیز طریقے سے وہ سہیل وڑائچ(جیو ٹی وی) کو انٹرویو دے رہے تھے سڑک پر بیٹھے کسی کا ضمیر نہیں جاگا ہر کوئی امریکہ بہادر کی جی حضوری اور ان سے مال بٹورنے میں لگا ہوا تھا کسی میں غیرت نہ تھی کہ محسن پاکستان کو محبت پیش کرتا۔
ہمیں ہنسی آتی ہے کہ جب عمران خان اسلام اور ریاست مدینہ کا بات کرتا ہے اس بے چارے کو یہ ہی نہیں معلوم کہ قومیں کیسے بنتی ہیں اور شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ کیسے بکھرتی ہیں اور ایک بکھری ہوئی قوم کو کیسے اکٹھا کیا جاتا ہے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ! مخالفین سے آگے کام اور بھی ہیں۔
لیکن وہ کچھ کرنے کی سعی نہیں کر رہا یا پھر اسے کرنے نہیں دیا جارہا شاید وہ اپنی مرضی سے جنازے میں نماز بھی ادا نہیں کرسکا۔ڈاکٹر قدیر خان کا یہ جملہ ہمارے کانوں میں گونج رہا ہے۔بھوپال میں غدار اور قادیانی پیدا نہیں ہوا اس پر انہیں فخر ہے کیا یہ بات اقتدار پر قابض لوگوں کے دماغ میں بچھو بن کر تکلیف نہیں دیتی۔عوام میں سے بچہ بچہ آج ڈاکٹر قدیر کی خدمات اور پاکستان پر انکے احسانات کو جانتا ہے وہ ہمارے قومی ہیرو تھے جنہوں نے ملک کی وفاداری میں اپنی مغرب کی رہائش کو خیرباد کہا تھا جان جوکھوں میں ڈال کر انہوں نے انڈیا کو زیر کرنے کے لئے ایٹم بم بنا کر دیا تھا۔کس طرح یہ ممکن ہوا اسکی بڑی تفصیل ہے باجوہ صاحب اور عمران خان کو جاننا چاہئے اگر وہ نہیں جانتے بھٹو کیسا بھی تھا۔لیکن یہ اسی کی حکمت عملی تھی کہ وہ ایٹم بم بنانے کے موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔غلام اسحاق خاں اس وقت صدر تھے اور بھٹو مرحوم وزیراعظم، ڈاکٹر قدیر خان اس ایٹمی پروگرام کی تکمیل میں صدر کا سہرہ دونوں کے سر پر باندھتے ہیں اور سچ یہ ہی ہے ہمارا محسن کہہ رہا ہے”ہم ہی سو گئے داستان کہتے کہتے”اور انتقال سے پہلے انہوں نے آخری خط سندھ کے وزیراعلیٰ کو لکھا تھا جس میں شکوہ کیا تھا کہ ان سے ملنے کوئی نہیں آیا بیماری کے دوران اسلام کہتا ہے مریض کی عیادت بھی عبادت ہے اور نیکی ہے کیا یہ بات ریاست مدینہ بنانے والے عمران خان کو معلوم ہے جنہوں نے چند دن پہلے ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کرکے مذہبی طبقے کو نہال کردیا کہ وہ رحمت العالمین اتھارٹی بنا رہے ہیں اور انہیں اسکے لئے چیئرمین کی تلاش ہے جو دنیا کو اسلام سے آگاہی دے گا۔اللہ ہماری بہتری کے لئے ہمیں رسول اللہۖکے راستے پر چلنے کی تلقین کر رہا ہے۔واہ کیا بات ہے مدرسے والے خوش بھٹو نے بھی مولویوں کو بٹھا کر شراب کی بوتل توڑی تھی ان کے سامنے تو کیا مولوی سدھر گئے میرا مطلب لوگوں نے شراب پینا بند کردی۔بیکاریاں بند کردیں۔پیسہ پاکستان سے لوٹ کر دوبئی میں جائو اپنی پسند کی کال گرل لے کر جائو بیوی سے کہو ضروری میٹنگ میں جارہا ہوں رنگ رلیاں منائو اور کھانے نکلو تو ریستوران کے ویٹر سے پوچھو گوشت حلال ہے نا صرف باتوں سے کچھ نہیں ہوتا یہ بات عمران جانتا ہے لیکن وہ جوتے لگانے سے قاصر ہے اس قسم کی اتھارٹی جو حضورملعم کے نام پر بنائی جائے۔منافقت ہی ہو سکتی ہے کے عمل کچھ نہیں کیا اقبال نے نہیں کیا تھا۔
یقین محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
کیا یہ سب کچھ ہم میں ہے۔عمران خان بھول چکا ہے کہ بے روزگاری مہنگائی، بجلی، پانی، گیس کی فراہمی عوام بے زار ہیں اسے نہیں معلوم جب پیٹ کی آگ نہ بجھے تو انسان اللہ کو بھول جاتا ہے مذہب بھی تبدیل کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور مذہب کی آڑ لے کر مشینری(تبلیغی) انگریزوں نے خوب فائدہ اٹھایا تھا سائوتھ افریقہ کے ڈیسمنڈ ٹوٹو اور نوبل پرائز یافتہ نے کہا تھا”جب مشینری(تبلیغی) لوگ افریقہ آئے تو انکے پاس بائیل تھی اور ہمارے پاس زمین انہوں نے کہا آنکھیں بند کر لو عبادت کرو۔ہم نے آنکھیں بند کرلیں اور جب کھولیں تو ہمارے پاس بائیل تھی اور انکے پاس ہماری زمین ڈاکٹر قدیر خان نے کرونا کو تو شکست دے دی لیکن وہ حکمرانوں کی بے حسی کو شکست نہ دے سکا۔
٭٭٭