پتہ نہیں کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان کسی طاقتور مافیا کے ہاتھ میں پھنس چکا ہے، جو خود سامنے آنے کے بجائے اپنے مہرے ہمارے سامنے صورت بدل بدل کر لاتا رہتا ہے جو اس مافیا کے منشور اور منشا کے متعلق ہی عوام پر ظلم و ستم کی مشق جاری رکھتے ہیں، جنہیں عرف عام میں مشکل فیصلے کا نام دیا جاتا ہے۔ حکومت وقت نے اپنے مشکل فیصلے کر لیے اور مستقبل میں شاید اور مشکل فیصلے بھی کرتے رہیں گے مگر اب اس حقیقت سے انکار ہوتا ہوا بھی نظر نہیں آتا کہ شاید آنے والے وقت میں عوام بھی مشکل فیصلے کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا اظہار نہ کریںاگرچہ اس قسم کے مشکل فیصلے ماضی میں بھی عوام کرتی رہی ہے لیکن اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ان مشکل فیصلوں کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔پاکستان میں مہنگائی نے عوام کی حقیقتا کمر توڑ کر رکھ دی ہے، حکمرانوں کے پاس تو بڑا سادہ سا بیان ہے کہ یہ مشکل فیصلے ماضی کی حکومت کی غلطیوں کی وجہ سے کرنے پڑے، سابقہ حکومت اپنی سابقہ حکومت پر ڈالتی رہی، ماضی کی حکومتوں پر اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو پھینکنے کی روش اگر برقرار رکھی گئی تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خدا نہ کرے، میرے منہ میں خاک مگر ایک روز یہ کہانی بانی پاکستان تک نہ پہنچ جائے۔حکومتوں کے لیے پاکستان میں مہنگائی کو ترویج دینا اگر مشکل فیصلے ہیں، تو مجھے یہ سوچ کر بھی خوف آرہا ہے کہ ایک روز کوئی مزدور پنکھے سے جھول جانے کا مشکل فیصلہ نہ کرلے، کسی روز کوئی کوئی حالات کا ستایا شخص بچوں سمیت زہر کھانے کا مشکل فیصلہ نہ کرلے، ایسے کتنے ہی مشکل فیصلے ہیں جن کو لکھتے ہوئے میرا دل کانپ رہا ہے۔ حکمران کچھ خدا کا خوف کریں، جب ہر چیز کی قیمت کو آگ لگائیں گے تو یہ آگ عوام تک نہ صرف پہنچے گئی بلکہ کسی روز ہر چیز کو تہس نہس کر کے رکھ دے گی۔پاکستان میں اکثریت پندرہ سے بیس یا زیادہ سے زیادہ 25 ہزار تک آمدن رکھنے والے لوگ ہیں، ان لوگوں کے پاس اگرچہ گاڑیاں اور بنگلے نہیں، لیکن پھر بھی پیٹرول سمیت دیگر اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ان کو اپنی زندگی کے مشکل فیصلے کرنے کے قریب کر لے کر جا رہے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ مشکل فیصلہ کس طرح ہو گیا کہ پیٹرول کی قیمت بڑھا دو یا بجلی کی چڑھا دو، مشکل فیصلہ تو یہ ہوتا کہ نا قیمتیں بڑھائی جاتی اور نہ ہی ان کے ذریعے لوگوں کے ذہنی سکون کو برباد کیا جاتا۔حکمرانوں کے کیے مشکل فیصلے لوگ گزشتہ کئی دہائیوں سے برداشت کر رہے ہیں، جس دن عوام نے کوئی مشکل فیصلہ کرلیا، تو شاید حکمرانی کے خواب دیکھنے والوں اور حکمرانی کرنے والوں کے لئے جینا دوبھر ہو جائے۔ درحقیقت یہ کالم میں نے عمران خان کے دور حکومت میں لکھا تھا لیکن اس کا ایک ایک لفظ آج کی حکومت پر بھی صادق آتا ہے۔ خدا جانے یہ مافیا اور کتنے مشکل فیصلے کروائے گا۔
٭٭٭