کسی بھی ملک میں الیکشن کو جمہوریت کی مضبوطی کی علامت سمجھا جاتا ہے ، اور آئین میں لکھے مروجہ طریقے کے تحت اس کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں موجود ہ حکومت نے الیکشن کے انعقاد کو دنیا کا بہت بڑا مسئلہ بنا دیا ہے، یعنی سیاست دان ہی حریف سیاستدانوں کے تقاریر، جلسے اور جلوسوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، گویا کہ جمہوریت کے خلاف کھلا اعلان جنگ کر رہے ہیں کہ ابھی الیکشن نہیں ہو سکتے ہیں، پاکستان کے آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 روز بعد ملک میں الیکشن کا انعقاد ہو نا چاہئے۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر پابندیوں کے بعد الیکشن کے اعلان نے حکومت کی ذہنیت کو عوام کے سامنے آشکار کر دیا ہے ،یعنی ایک سیاستدان کی تقریر، جلسے، جلوسوں پر پابندی عائد کر کے آپ کیسے الیکشن کا انعقاد کر سکتے ہیں، دنیا نیوز کے پروگرام میں معروف صحافی مجیب الرحمن شامی نے حکومت کی سوچ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی بھونڈی سازشیں سمجھ سے بالاتر ہیں ، لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ چاہے عمران خان پر پابندیاں لگائیں یا ملک میں کرفیو نافذ کریں لیکن الیکشن ہر صورت کرائیں کیونکہ جمہوری رویے کی واحد اور پہلی اکائی ہے، اگر حکومت الیکشن سے ہی بھاگ جائے گی تو جمہوریت برائے نام بازاروں میں بکے گی۔ پاکستانی حکومت ، اسٹیبلشمنٹ اور پاک فوج کو اپنے ہمسایہ ممالک میں ہی دیکھنا چاہئے کہ کیسے بھارت اپنی مضبوط جمہوریت کی وجہ سے دنیا کی سپر پاور بننے کی جانب رواں دواں ہے ، ترکی نے بھی شدید ترین زلزلے کے باوجود ملک میں الیکشن مقررہ وقت پر ہی کرانے کا اعلا ن کیا ہے ، اگر عمران خان ملک میں الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ کر رہا ہے جوکہ اسمبلیاں تحیل ہونے کے بعد آئینی مطالبہ ہے تو اس کو من و عن پورا کیا جانا چاہئے، حکومت عمران خان کی وجہ سے الیکشن کو التوا کا شکار کر رہی ہے جوکہ بچگانہ اور بھونڈی حرکت ہے۔ توقع ہے کہ الیکشن کمیشن پنجاب اور کے پی میں انتخابات کرانے کیلئے اپریل کے آخری ہفتے یا پھر مئی 2023 میں کوئی تاریخ دے گا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اجلاس جمعرات کو ہوا جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد معاملے پر غور کیا گیا تاہم کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا، اب اجلاس ایک مرتبہ پھر جمعہ کو ہوگا اور کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن کی رائے بہت واضح تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا ہوگا اور صدر مملکت کو پنجاب میں تاریخ بتانا ہوگی جبکہ کے پی میں الیکشن کیلئے گورنر سے مشاورت کرنا ہوگی۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ انتخابات اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن میں ممکن نہیں ہوں گے جب کہ صدر مملکت اور گورنر کے پی کی جانب سے تاریخ کا اعلان ہونے کے 54 دن میں بھی نہیں ہوں گے، کہا جاتا ہے کہ ممکنہ طور پر کمیشن رمضان اور عید کے بعد تاریخ کی تجویز پیش کرسکتا ہے، کہا جاتا ہے کہ تاریخ کے آپشنز اپریل کے آخری ہفتے یا مئی کے اوائل میں ہوں گے۔ گیلپ کے حالیہ سروے نے بھی پاکستان میں حکمرانوں کی مقبولیت اور پوزیشن کو واضح کر دیا ہے جس کے مطابق 61 فیصد شہریوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کیلئے پسندیدگی کا اظہار کیا جبکہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 36 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پرہیں۔سروے کے مطابق 34 فیصد نے مریم نواز اور 32 فیصد نے وزیراعظم شہباز شریف کے لیے مثبت رائے کا اظہارکیا ہے۔اس کے علاوہ 31 فیصد نے مولانا فضل الرحمان اور 27 فیصد نے آصف زرداری کو پسندیدہ رہنما قرار دیا۔ حکومت کے لاکھ ہتھکنڈوں کے باوجود عمران خان کی ملک میں مقبولیت کم ہونے میں نہیں آ رہی ہے بلکہ مزید بڑھ رہی ہے ، ہرروز حکومتی ورزا صبح سے شام بلکہ رات گئے تک عمران خان کی تعریف میں قصیدے پڑھتے ہیں، ان کی برائیوں میں گھنٹوں گزارتے ہیں، لیکن عقل کے اندھوں کو ا س بات کا اندازہ ہونا چاہئے کہ ان حرکتوں سے عمران خان کی مقبولیت میں کمی کی بجائے اضافہ ہوگا، بلکہ ہو رہا ہے ، گیلپ کے حالیہ سروے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کونسا لیڈر عوام میں کتنی مقبولیت رکھتا ہے ، الیکشن کے نتائج کچھ بھی ہوں لیکن حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوریت کو فروغ دینے کے بروقت انتخابات کو یقینی بنائے، فوج کو بھی چاہئے کہ وہ شفاف انتخابات کے انعقاد پر حکومت کو مجبور کرے اور انتخابات کے پر امن انعقاد سے اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرے۔
٭٭٭